کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 26
کرے گا۔ اور مزارع کو اس کا حق خدمت دیا جائے گا جتنی کہ اس نے محنت کی ہو گی۔ [1] جب امام ابو حنیفہ کا مسلک وہ ہے، جو اوپر بیان ہوا، تو آخر مسعود صاحب کس طرح ان سے یہ بات منسوب کر رہے ہیں کہ وہ مزارعت کے قائل نہیں تھے، واقعہ یہ ہے، نقد ٹھیکہ بھی زمینداری ہے اور مزدور سے کام کروانا بھی زمینداری ہے، امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ سب جائز ہے۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ پر الزام: مسعود صاحب لکھتے ہیں ، ’’ملوکیت انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ ان حالات میں امام ابو یوسف کے لئے مزارعت کے خلاف رائے قائم کرنا ممکن نہ تھا۔‘‘ اصل میں مسعود صاحب کہنا یہ چاہتے ہیں کہ امام ابو یوسف دولت مندوں کے ایجنٹ تھے، لیکن اس خیال سے کہ پاکستان میں حنفیوں کی کثرت ہے۔ انہوں نے سرمایہ داروں کے ایجنٹ والی بات بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے پیش کی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ان کے زمانے میں ملوکیت انتہا کو پہنچ گئی تھی ۔[2] تو بطور وارث انبیاء کے ان کا فرض تھا کہ وہ حق بات کہیں نہ یہ کہ دولت مندوں کے ر سے مسئلہ بدل دیں ۔ مسعود صاحب کے زعم میں خود ان کے لئے سچ بات بیسویں صدی میں تو کہنا ممکن ہے، لیکن قرونِ اُولیٰ میں امام ابو یوسف جیسے عالم کے لئے حق بات کا فتویٰ دینا ممکن نہ تھا۔
[1] ’’ملوکیت‘‘ کے لحاظ سے امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے زمانوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ دونوں ہم عصر اور استاد شاگرد تھے۔ [2] یعنی امام ابو حنیفہ کاشت کاروں کو فصل دینے کے لئے نہیں کہہ رہے جیسا کہ مسعود صاحب کا نظریہ ہے، بلکہ، مسعود صاحب کے برعکس فتویٰ دے رہے ہیں۔