کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 23
کچھ عرض کیا جائے، لیکن اس مالک نے اپنی عنایت و رحمت سے صرف مسواک ہی کا حکم دیا ہے اس لئے میں مسواک کرتا ہوں تو وہ نماز اگر اس نماز کے مقالہ میں جس کے لئے مسواک نہ کی گئی ہو، ستر یا اس سے بھی زیادہ درجے افضل قرار دی جائے تو بالکل حق ہے۔ حقیقت تو یہ ہے۔ (معارف الحدیث، مولانا محمد منظور نعمانی)
؎ہزار بار بشویم دہن زمشکو گلاب
ہنوزِ نامِ تو گفتن کمالِ بے ادبی است
دورِ جدید کے عظیم مفکر ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ سے کسی نے استفسار کیا کہ ’’اب تو اچھے اچھے ولایتی منجن ملتے ہیں ، کیا وہ مسواک کا نعم البدل نہیں ہو سکے۔‘‘ ان کے جواب میں علامہ نے لکھا:۔
’’مسواک سے میری مراد دیسی مسواک تھی نہ کہ انگریزی طرز کے منجن اور برش۔ کیونکہ یورپ کی بنی ہوئی بعض چیزیں خوبصورت ضرور ہوتی ہیں مگر ان میں اخلاقی زہر ہوتا ہے۔ جس کا اثر آج کل کے مادہ پرست مزاج رکھنے والے انسان فوراً محسوس نہیں کر سکتے۔‘‘
’’روزگارِ فقیر‘‘ کے مؤلف اس اقتباس کے تحت لکھتے ہیں :۔
’’مسواک کا استعمال اس لئے مبارک اور مفید ہے کہ اس میں سنتِ رسول کا اتباع مضمر ہے۔ یہی مقدس جذبہ تھا جس نے مسواک کو علامہ کی نگاہ میں محبوب بنا دیا تھا۔ محبت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ محبوب کی ہر چیز محب کو محبوب و پسندیدہ نظر آئے۔ ’’فنانی الرسول‘‘ کی مشہور صوفیانہ اصطلاح کا لب لباب یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و مرضیات میں اپنی مرضی اور خواہش کو گم کر دیا جائے اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری اطاعت کی جائے۔ [1]
[1] روزگارِ فقیر جلد دوم ص ۱۵۹