کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 21
بعض شارحین نے ’’الفطرۃ‘‘ سے دین فطرت مراد لیا ہے، اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ دس چیزیں دینِ فطرت (اسلام) کے اجزاء یا احکام میں سے ہیں ۔ اور بعض شارحین نے ’’الفطرۃ‘‘ سے مراد انسان کی اصل فطرت و جبلت مراد لی ہے۔ اس تشریح کی بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ دس چیزیں انسان کی اصل فطرت کا تقاضا ہیں جو اللہ نے اس کی بنائی ہے۔ جس طرح انسان کی اصل فطرت یہ ہے کہ وہ ایمان، نیکی اور طہارت و پاکیزگی کو پسند کرتا ہے، اور کفر و فواحش، گندگی اور ناپاکی کو ناپسند کرتا ہے۔ اسی طرح مذکورہ بالا دس چیزیں ایسی ہیں کہ انسانی فطرت (اگر کسی خارجی اثر سے ماؤف نہ ہو چکی ہو) تو ان کو پسند ہی کرتا ہے اور حقیقت شناس جانتے ہیں کہ انبیائے کرام جو دین یا زندگی کا طریقہ لے کر آتے ہیں وہ دراصل انسانی فطرت کے تقاضوں ہی کی مستند اور منضبط تشریح ہوتی ہے۔ آج ہم فطرتی آداب سے کتنے دور ہو گئے ہیں ۔ مونچھیں باریک ترشوانے کا حکم تھا لیکن ہم نے بڑی بڑی مونچھیں رکھ لیں ۔ ناخن کٹوانے کا کم ملا تو یورپ کے تتبع میں انہیں بڑھانا اور ریت ریت کر صاف کرنا شروع کر دیا۔ بقول مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ : ’’جن کے ناخن بڑے اور مونچھیں بڑی ہوتی ہیں ، وہ کانے پینے کی ہر چیز کو گندہ کر کے کھاتے پیتے ہیں ۔ جس سے نہ صرف دوسروں کو کراہت معلوم ہوتی ہے بلکہ خود ان کو طبی طور پر نقصان پہنچتا ہے، یورپ میں ناخن بڑھانا اور ان کو ریت ریت کر صاف کرنا، اور اسی طرح بعض لوگوں میں بڑی بڑی مونچھیں رکھنا حسن سمجھا گیا ہے مگر یہ دونوں باتیں صریحاً خلافِ فطرت ہیں اور کھانے پینے کی گندگی کا باعث ہیں ۔ مونچھوں کے بڑھانے کا فیشن یورپ کا آئینہ بدل جانے سے اب کم ہو رہا ہے۔ مگر داڑھی بڑھانے کے بجائے اس کے منڈانے کا فیشن ابھی اسی طرح قائم ہے، بلکہ اب تو داڑھی اور مونچھ دونوں کو صاف کرنے کا حکم ترقی پر ہے، یہ تمام باتیں اسلامی شعار کے خلاف ہیں اور اس شعار کے مخالف ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے مقرر کیا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، آپ نے ارشاد فرمایا ’’مجوسیوں کے خلاف تم مونچھیں۔ ترشواؤ اور