کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 19
مسواک کی اہمیت زیادہ ہے:۔ (۱) وضو میں ۔ (۲) نماز کے لئے کھڑ ہوتے وقت (اگر وضو اور نماز کے درمیان زیادہ دیر ہو گئی ہو) (۳) قرآن کریم کی تلاوت کے لئے۔ (۴) سونے سے اُٹھنے کے وقت۔ (۵) اور منہ میں بدبو پیدا ہو جانے یا دانتوں کے رنگ میں تغیر آجانے کے وقت ان کی صفائی کے لئے۔ مسواک انبیائے کرام کی سنت ہے: 7)عَنْ اَبِیْ اَیُّوْبَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم : ’’اَرْبَعٌ مِّنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِیْنَ الْحَیَاءُ وَالتَّعَطُّرُ وَالسِّوَاکُ وَالنِّکَاحُ۔‘‘ (رواہ الترمذی) حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چار چیزیں پیغمبروں کی سنتوں میں سے ہیں ۔ ایک حیا۔ دوسرے خوشبو لگانا۔ تیسرے مسواک کرنا۔ اور چوتھے نکاح کرنا۔ تشریح: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ بتا کر کہ یہ چاروں چیزیں اللہ کے پیغمبروں کی سنتیں ہیں ، اپنی امت کو ترغیب دی ہے۔ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں حیا کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہمارے ہاں تو اس کا یہ مفہوم سمجھا جاتا ہے کہ آدمی شرمناک باتوں اور شرمناک کام کرنے سے بچے، لیکن قرآن و حدیث کے استعمالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حیا۔ طبیعتِ انسانی کی اس کیفیت کا نام ہے کہ ہر نامناسب بات اور ناپسندیدہ کام سے اس کو انقباض اور گھٹن ہو اور اس کے ارتکاب سے اسے اذیت ہو۔ حیا کا تعلق صرف اپنے ابنائے جنس ہی سے نہیں ہے بلکہ حیا کا سب سے زیادہ مستحق وہ خالق و مالک ہے جس نے بندہ کو وجود بخشا اور جس کی پروردگاری سے وہ ہر آن حصہ پا رہا ہے اور جس کی نگاہ سے اس کا کوئی عمل اور کوئی حال مخفی نہیں ۔ اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ شرم و حیا کرنے والے انسانوں کو سب سے زیادہ شرم و حیا اپنے ماں باپ کی، اور اپنے بڑوں اور محسنوں کی ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ سب بڑوں سے بڑا، اور سب محسنوں کا محسن ہے۔ لہٰذا بندہ کو سب سے زیادہ شرم و حیا اسی کی ہونی چاہئے اور اس حیا کا تقاضا یہ ہو گا کہ جو کام اور