کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 15
اور فتح الباری کتاب التفسیر میں ہے:۔ قولہ باب (وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ) اتفق اھل التفسیر علی ان المخاطب بذلک الاولیاء۔ ذکرہ ابن جریر وغیرہ یعنی تمام مفسرین متفق ہیں کہ اس آیت میں مخاطب اولیاء ہیں ۔ مذکورہ بالا آیات سے رئیس المحدثین امام المجتہدین حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی صحیح بخاری میں نکاح میں ولایتِ ولی کے شرط ہونے پر استدلال کیا ہے، جو آگے آئے گا۔ ولی کی شمولیت یا اجازت کے بغیر نکاح نہ ہونے پر اور آیات بھی پیش کی جا سکتی ہیں مگر فی الحال اتنے پر کفایت کی جاتی ہے۔ پس مذکورہ بالا آیاتِ قرآنیہ سے روز روشن کی طرح ثابت اور واضح ہو گیا کہ عورت کا نکاح بغیر شمولیت یا اجازتِ ولی کے جائز نہیں کیونکہ نکاح کرنے کرانے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے مردوں کی طرف کی ہے اور کل امور میں مرد ہی حاکم ہوتا ہے۔ نکاح میں بھی وہی حاکم ہو گا۔ اس کے خلاف جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں ان کا جواب آخر میں دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ جب کوئی مسئلہ قرآن پاک سے ثابت ہو جائے تو دیگر دلائل کی ضرورت نہیں رہتی۔ مگر چونکہ انبیاء علیہم السلام کتاب اللہ کے سب سے بڑے عالم اور خدا تعالیٰ کے منشاء اور مرضی کو سب سے زیادہ صحیح سمجھنے والے ہوتے ہیں ، لہٰذا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ عالیہ کا بیان کرنا ضروری ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مبلغ اور مفسرِ قرآن ہیں ۔ جن کے حق میں یٰآیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ الآیۃ نازل ہوئی ہے۔ اس مسئلہ میں کیا ارشاد فرمایا ہے۔ چنانچہ کتب حدیث میں یہ مسئلہ بالصراحت موجود ہے جو آئندہ قسط میں بیان کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔