کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 14
روکو۔ اور یہ آیت قطعی دلیل ہے کہ عورت کا نکاح کرنے میں ولی کی اجازت کے بغیر کوئی حق نہیں اور نکاح کی ولایت کا حق صرف مرد کو ہی ہے۔ خلافاً لابی حنیفہ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اولیاء کو یوں حکم نہ فرماتے کہ اے اولیاء تم عورتوں کو نکاح کرنے سے مت روکو (بلکہ یوں فرماتے کہ تمہارا اس بارے میں کچھ دخل نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بعض موقعہ پر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا۔ لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ الآیہ یعنی اے نبی آپ کا اس امر میں کچھ دخل و اختیار نہیں ) پس ثابت ہوا کہ نکاح ولی کا حق و اختیار ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی ایک بہن تھی، اس کو اسکے خاوند نے طلاق دے دی۔ جب عدت ختم ہوئی تو اس نے دوبارہ نکاح کرنے کی درخواست پیش کر دی۔ معقل نے انکار کیا کیونکہ یہ اپنی ہمشیرہ کا ولی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اگر معقل کا حق اور اختیار نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما دیتے کہ معقل کا اس معاملہ میں کچھ دخل اور حق نہیں ۔ اور اس آیت پر بہت سے سوالات وارد ہوتے ہیں جن سب کو معقل کی اس حدیث صحیح نے جس کو دیگر ائمہ کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا، ختم کر دیا ہے۔ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ۔ خطاب للاولیائ ای لا تمنعوھن من (ان ینکحن ازواجہن) المطلقین لھن لان سبب نزولھا ان اخت معقل بن یسار طلقھا زوجھا فاراد ان یراجعھا فمنعھا معقل بن یسار کما رواہ الحاکم (جلالین مع جمل ج۱، ص ۱۸۷) یعنی فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ میں خطاب اولیاءِ عورت کو ہے یعنی اے ولیو! عورتوں کو ان کے خاوندوں سے جنہوں نے انہیں طلاق دی ہے، نکاح کرنے سے مت منع کرو اور اس بات کی دلیل کہ اِس آیات میں خطاب اولیاء کو ہے یہ ہے کہ یہ آیت معقل بن یسار کی بہن کے حق میں نازل ہوئی ہے جس کو اس کے خاوند نے طلاق دی تھی پھر وہ اس سے نکاح کرنا چاہتا تھا۔ معقل بن یسار نے اپنی بہن کو نکاح سے منع کر دیا تھا۔ اس کو حاکم نے روایت کیا ہے