کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 13
نکاح ولی کا محتاج نہیں اور ان پر بڑا تعجب ہے (کہ انہوں نے یہ غلط فتویٰ کس طرح دیا) انہوں نے کب دیکھا کہ کسی عورت نے اپنا نکاح خود کیا ہے۔ حالانکہ احادیث مشہور ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکا جائز نہیں اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح خود کر لے وہ نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔
اور آیت وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا کے متعلق ابن العربی رحمہ اللہ یوں لکھتے ہیں ۔
المسئلۃ الثانیۃ قال محمد بن علی بن حسین النکاحح بولی فی کتاب اللّٰه ثم قرء وَلَا تُنْکِحُوا المُشْرِکِیْنَ بضم التاء وھی مسئلۃ بدیعۃ ودلالۃ صحیحۃ [1]
یعنی محمد بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نکاح بغیر اجازت ولی کے نہیں ہوتا۔ یہ کتاب اللہ میں موجود ہے پھر یہ آیت وَلَا تُنْکِحُوا المُشْرِکِیْنَ پڑھی۔ ابن عربی فرماتے ہیں کہ واقعی یہ عجیب مسئلہ ہے اور دلالت صحیح ہے۔
اسی طرح فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ کے بارے میں لکھتے ہیں :۔
العضل یتصرف علی وجوہ مرجعھا الی المنع وھو المرادھا ھنا فنھی اللّٰه تعالی اولیاء المرءۃ من منعھا عن نکاح من ترضاہ وھذا دلیل قاطع علی ان المرءۃ لا حق لھا فی مباشرۃ النکاح وانما ھو حق الولی خلافا لا بی حنیفۃ ولو لا ذلک لما نھاہ اللّٰه تعالیٰ عن منعھا وقد صح ان معقل بن یسار کانت لہ فطلقا زوجھا فلما انقضت العدۃ خطبھا فابی معقل فانزل اللّٰه تعالیٰ ھذہ الآیۃ ولو لم یکن لہ حق لقالاللّٰه تعالیٰ لنبیہ علیہ السلام لا کلام لمعقل فی ذلک وفی الآیۃ مسئلۃ کثیرۃ یقطعھا ھذا الحدیث الصحیح خرجہ البخاری [2]
یعنی عضل کئی معنوں میں مستعمل ہے۔ سب کا حاصل ممانعت ہے اور یہاں ممانعت ہی مراد ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اولیاء کو حکم دیا ہے کہ عورت کو اس کے من پسند خاوند کرنے سے مت
[1] احکام القرآن ج۱، ص ۱۵۸
[2] ایضا۔ ج۱، ص ۲۰۱