کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 12
وقیل ھم الاولیاء من قریب او سید والصحیح انھم الاولیاء لانہ قال اَنْکِحُوْا بالھمزۃ ولو اراد الازواج لقال ذلک بغیر ھمزۃ وکانت الالف للوصل وان کان بالھمز فی الازواج وجہ فالظاھر اولٰی فلا یعدل الٰی غیرہ الا بدلیل [1]
یعنی دوسرا مسئلہ کہ اَنْکِحُوْا کے مخاطب کون لوگ ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ خاوند ہیں اور بعض نے کہا کہ ولی اقرب اور مالک ہیں ۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ اولیاء مراد ہیں کیونکہ اَنْکِحُوْا میں ہمزہ قطعی ہے (اس لئے کہ باب افعال کا صیغۂ امر ہے) اگر خاوند مراد ہوتے تو ہمزہ وصلی ہونا چاہئے تھا جو باب ضَرَبَ یَضْرِبُ کا امر ہوتا۔ پس ظاہر اور راجح یہی ہے کہ اولیاء مراد ہیں ۔ خاوند مراد لینا جائز نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ۔
ایک دوسرے مقام پر ایک اور آیت کے ماتحت قاضی ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :۔
قال علماء نا فی ھذہ الاٰیۃ دلیل علی ان النکاح الی الولی لا حظ للمرءۃ فیہ لان صالح مدین تولاہ وبہ قال فقھاء الا مصار وقال ابو حنیفۃ لا یفتقر النکاح الی ولی وعجبا لہ متی رای امراۃ قط عقدت نکاح نفسھا ومن المشھور فی الآثار لا نکاح الا بولی وقال النبی صلی اللّٰه لیہ وسلم ایما امراۃ نکحت نفسھا بغیر اذن ولیھا فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل۔ [2]
یعنی ہمارے علماء نے کہا ہے کہ اس آیت اِنِّیْ اُرِیْدُ اَنْ اُنْکِحَکَ اِحْدٰی ابْنَتَیَّ ھٰتَیْنِ میں دلیل ہے اس پر کہ نکاح کرنا ولی کے اختیار میں ہے۔ عورت کا بغیر اجازت ولی کے کوئی اختیار نہیں کیونکہ مدین کے نیک انسان غالباً شعیب علیہ السلام نے خود ہی اپنی بیٹی کا موسیٰ علیہ السلام کو نکاح دے دیا تھا۔ اور یہی شہروں اور ملکوں کے فقہاء کا فتویٰ ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا کہ
[1] احکام القرآن ص ۱۳۶۴، ج۳
[2] ایضاً ص ۱۴۶۴، ج۳