کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 11
الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ الآتہ کے تحت لکھا ہے: والخطاب فی الآیۃ للاولیاء وقیل للازواج ولاول ارجح وفیہ دلیل علی ان المرءۃ لا تنکح نفسھا وقد خالف فیہ ابو حنیفۃ [1] یعنی اس آیات میں خطاب ولیوں کو ہے اور کہا گیا ہے کہ خاوندوں کو ہے۔ لیکن پہلا صحیح ہے اور اس آیت میں دلیل ہے کہ عورت اپنا نکاح خود نہیں کر سکتی لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا اِس میں اختلاف ہے۔ جامع البیان ص ۳۰۳ میں ہے:۔ ’’وَاَنْکِحُوْا۔ ایھا الاولیاء والسادۃ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عورتوں کے ولیں اور لونڈی غلاموں کے مالکوں کو حکم دیتے ہیں کہ ان کے نکاح کر دو۔‘‘ اور تفسیر جمل میں ہے:۔ وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ۔ الخطاب للاولیاء والسادۃ وفیہ دلیل علی وجوب تزویج المولیۃ والمملوک وذلک عند طلبھا وطلبہ واشعار بان المرءۃ والعبد لا یستبد ان بہ اذ لو استبدا لما وجب علی الولی والسید [2] یعنی وانکحوا الایامی منکم میں عورت کے ولیوں اور لونڈی غلاموں کے مالکوں کو خطاب (حکم) ہے کہ ان کے نکاح کر دو اور اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت اور غلام کا نکاح کرنا فرض ہے جب کہ وہ مطالبہ کریں اور اس میں یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ عورت اور غلام اپنا نکاح خود نہیں کر سکتے۔ اگر وہ خود کر سکتے تو ولیوں اور مالکوں پر فرض نہ ہوتا۔ قاضی ابن العربی رحمہ اللہ کی احکام القرآن میں ہے:۔ المسئلۃ الثانیۃ فی المراد بالخطاب بقولہ اَنْکِحُوْا۔ فقیل ھم الازواج
[1] تفسیر فتح القدیر الجامع بین ففی الروایۃ والدرایۃ من علم التفسیر ص ۲۸، ج ۴ [2] جمل ص ۲۲۱، ج۴