کتاب: محدث شمارہ 7 - صفحہ 10
’’یعنی زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت سے ہی نکاح کرتا ہے اور زانیہ عورت سے بھی زای یا مشرک مرد ہی نکاح کرتا ہے۔‘‘ 7)وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ حَتّٰی یُوْمِنَّ (پ۲، ع۱۲) ’’مشرکہ عورتوں سے نکاح مت کرو یہاں تک کہ ایماندار بن جائیں ۔‘‘ 8)وَلَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآءُکُمْ (پ۴، ع۱۴) ’’تم ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن س تمہارے باپ دادا نے نکاح کیا ہے۔‘‘ 9)وَلَا تَنْکِحُوْآ اَزْوَاجَہ مِنْ بَعْدِہ اَبَدًا ط (پ۲۲، ع۴) ’’یعنی تم اے مسلمانو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ازواج مطہرات سے نکاح مت کرو۔‘‘ ان آیات میں نکاح کرنے کی نسبت مرد کی طرف کی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مرد کو نکا کرنے میں ولی کی ضرورت نہیں یعنی ولی شرط نہیں ۔ 1)وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآءِکُمْ (پ۱۸، ع۱۰) ’’یعنی ا ولیو! اپنی بیوہ عورتوں اور نیک لونڈی اور غلاموں کا نکاح کرو۔‘‘ 2)قَالَ اِنِّیْ اُرِیْدُ اَنْ اُنْکِحَکَ اِحْدٰی ابْنَتَیَّ ھٰتَیْنِ (پ۲۰، ع۶) ’’شعیب علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایاکہ میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح تیسرے ساتھ کر دوں ۔‘‘ 3)وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا (پ۲، ع۱۱) ’’یعنی کافر آدمی جب تک مسلمان نہ ہو جائیں ان کو مسلمان عورتوں کا نکاح مت دو۔‘‘ اِن آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح کرنے کا اختیار مرد ہی کو ہے، عورت کو نہیں ۔ کیونکہ ان آیات میں نکاح کر دینے اور نہ کر دینے کا حکم اللہ تعالیٰ نے اولیاء کو دیا ہے۔ اس سے ہر عاقل اس نکتے کو سمجھ سکتا ہے جس کی ہم وضاحت کر رہے ہیں ۔ چنانچہ تفاسیر میں ان آیات اور دیگر آیات سے استدلال کیا گیا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں ۔ چنانچہ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر فتح التقدیر میں آیت وَاَنْکِحُوا