کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 9
اپنی عزت کے آبگینوں کو یوں بے رحم حوادث کے سپرد کر دیا ہے۔ ؎ ایں کا راز تو آید و مرداں چنیں کنند اکبر الٰہ آبادی نے کیا خوب کہا تھا ؎ شرم اِن کو نہیں آتی غیرت اُن کو نہیں آتی مخلوط تعلیم سے جوگ برگ و بار پھوٹ رہے ہیں ، ان کے متعلق تفصیلی حالات کا جائزہ انشا اللہ آئندہ کسی اشاعت میں لیا جائے گا۔ مختصراً یہی کہنا ہے کہ درد مندانِ ملت نے اگر فحاشی، بدمعاشی اور بے راہ روی کا فوری انسداد نہ کیا و یہ آتشیں لاوا اس نظریاتی مملکت کے اخلاق اور اسلام کے علاوہ غیرت و حمیت کو بھی بہا کر لے جائیگا۔ اور ہمارے یہ کالجیٹ نوجوان یورپ کے مادر پدر آزاد مرد عورت ہپیوں کی طرح جگہ جگہ مارے مارے پھرتے نظر آئیں گے، پھر خدا کا کوئی قہر ہی ان کا خاتمہ کر سکے گا۔ ہمارے نوجوان طالب علموں کی اجتماعی نفسیات کی روشنی میں ان کے کیریکٹر اور اخلاق جاننے کے لئے ایک صاحب سید مظہر علی صاحب چوک نواب صاحب لاہور کا ایک مکتوب ملاحظہ فرمائیے، جو اخبار کوہستان ۲۶ مئی ۷۱؁ میں شائع ہوا ہے جو بلا تبصرہ درج ذیل ہے۔ مجھے ۷۱/۵/۱۳ سندھ ایکسپریس ۱۱۵۔ اپ کراچی سے لاہور آنے کا اتفاق ہوا۔ گاڑی کراچی کینٹ پر پہنچی تو پلیٹ فارم پر ڈھولک پر ناچ دیکھنے میں آیا۔ طالب علم شتر بے مہار کی طرح پلیٹ فارم پر اودھم مچا رہے تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ عزیز طلبا کی ایک پارٹی لاہور جا رہی ہے، گاڑی کے مسافروں پر اس پارٹی نے تمام راہ عرصہ حیات تنگ کئے رکھا۔ ہر جنکشن پر یہ لڑکے باقاعدہ ڈھولک بجاتے، عورتوں کے کمپارٹمنٹ کے آگے خوب ڈانس کرتے، ٹنڈو آدم کے قریب نہر پر گاڑی کی زنجیر کھینچ کر گاڑی روکی اور باقاعدہ نہر میں نہا کر گاڑی کو چلنے کا موقعہ دیا۔ خانیوال سٹیشن پر چھابڑی والوں کی چیزیں خورد برد کر لیں ۔ رینالہ خورد سٹیشن پر فالسے کی ایک Booked ٹوکری اُٹھا کر کمرے میں رکھ لی اور واپس نہیں