کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 8
بنک، ڈکیتی، فراڈ کیس، قتل اور دیگر معاشرتی جرائم میں اکثر اسی نو تعلیم یافتہ نسل کا ہاتھ ہوتا ہے، ہم نے دیکھا کہ ایک ایسے ہی نوجوان نے اپنی نوجوان معصوم بیوی کو مکان کی تیسری منزل سے صرف اس جرم میں گرایا گیا ہ اس کے والدین اسے اپنی غریبی کی وجہ سے ’’معقول‘‘ جہیز نہ دے سکے۔ مخلوط تعلیم کے مہلک اثرات: کالجوں میں مخلوط تعلیم کے اثرات ان فارغ التحصیل نوجوانوں کی زندگیوں میں زہر آلود نقوش چھوڑ جاتے ہیں ، وہ بات بات میں اپنی ہم جماعت لڑکی کا ذِکر چھیڑ دیتے ہیں ۔ ان کی اداؤں ، ان کی سرگرمیوں اور ان کے ہنسی مذاق کے فقرات ان کی زندگیوں کا سرمایۂ حیات بن جاتے ہیں ، وہ گاہے بگاہے اور حیلہ بہانہ سے انکو اپنے ہاں دعوت دینے میں کمال انسانیت سمجھتے ہیں ، اور اکثر و بیشتر اس میل ملاقات کے نتائج شرمناک صورت میں سامنے آتے ہیں ، بیشتر خاندانوں کی عزت خاک میں مل جاتی ہے اور ناجائز مخلوق کی پیدائش سے کئی خاندانوں کا سکون اور کئی لڑکیوں کا مستقبل تباہ ہو جاتا ہے۔ کیا ہماری یونیورسٹیوں کے ارباب اختیار کو معلوم نہیں کہ ہمارے ان دانش کدوں میں کیا ہو رہا ہے؟ بات یہ ہے کہ ان کے ہاں مسلسل انگریزی ماحول کی وجہ سے نیک و بد اور حرام و حلال کی تمہیز ہی ختم ہو گئی ہے، ہم نے خود ایک مسلمان انگریزی زدہ سکالر سے سنا کہ زنا میں کیا خرابی ہے؟ یہ تو انسانی بھوک اور اس کی قدرتی غذا ہے۔ اسے حدود و قیود کی زنجیروں میں جکڑا نہیں جا سکتا۔ ہم نے دیکھا کہ اکثر و بیشتر طالب علم و طالبہ والدین کی مرضی کے خلاف باہمی زوجیت میں منسلک ہو گئے، لیکن جلد ہی خانہ جنگی، دشمنی اور تنسیخ نکاح سے بڑھ کر معاملہ قتل و غارت تک پہنچ گیا۔ مخلوط تعلیم ہمارے کالجوں اور ہماری یونیورسٹی میں جو گل کھلا رہی ہے، کیا وہ ہمارے اربابِ تعلیم سے پوشیدہ ہے؟ وہ کون سی بے راہ روی ہے، جو ان علم کے ایوانوں ، ان ہوسٹلوں اور ان دانشکدوں میں روا نہیں رکھی جاتی ہے، ان بے غیرت والدین کے متعلق کیا کہا جائے۔ جنہوں نے تہذیب کے نام پر