کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 7
زنانہ کالجوں کے دروازوں پر مسلح پولیس کا پہرہ ناگزیر ہو گیا ہے۔
ہمارے طلب علم ۸۰ فیصد سگریٹ نوشی کے عادی ہیں ۔ ۹۰ فیصد طلبا سینما کو ایک جزوِ زندگی اور لازمۂ حیات تصور کرتے ہیں ، ۳۰ فیصد طلبا شراب کے رسیا ہیں ۔ ایک بہت بڑ ے ذمہ دار پولیس آفیسر نے چند سال ہوئے ملکی جرائم کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ اکثر و بیشتر جرائم میں نوجوان طلبا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ انقلاب چرخ گردوں تو دیکھئے کہ جو مسلم نوجوان غیر مسلم اور کافر عورتوں تک کی عصمت کی حفاظت کی ضروری اور ایک انسانی عظمت خیال کرتا تھا۔ اب اپنی حقیقی بہن کے ذریعہ اِس کی ہم جماعت طالب علم لڑکیوں کی عصمت کے آبگینوں سے کھیلنے میں ایک فخر محسوس کرتا ہے اور اپنی چنڈال چوکڑی میں اس کا فخریہ اظہار کرتا ہے، یہ سب ہماری موجودہ تعلیم کے برگ و بار نہیں تو کیا ہیں ؟
ہمارے فارغ التحصیل طلبا کے اوصاف:
ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے موجودہ فارغ التحصیل طلبا جو کالجوں سے گریجوایشن یا ایم۔ اے کر کے عام سوسائٹی میں داخل ہوتے ہیں ، عام طور پر حیوان سے بھی بد تر ہوتے ہیں ، عام معمولی اخلاقی تقاضوں سے بھی ناواقف ہیں ۔ الا ما شا اللہ ہاں وہ خوش قسمت جنہیں گھریلو علمی، اخلاقی اور دینی ماحول مل گیا ورنہ شرم و حیا قسم کی کوئی چیز ان میں نہیں ہوتی۔ یہ لوگ نماز سے اکثر متنفر ہوتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو سلام کرنا، محبت سے پیش آنا، بڑوں کی عزت کرنا، چھوٹوں پر شفقت کرنا، خدمتِ خلق سر انجام دینا، والدین کی عزت کا خیال رکھنا، اور ان کی اطاعت و عزت کرنا، گھریلو فرائض بجا لانا، والدین کی تکالیف کا احساس کرنا، تحمل مزاجی، برد باری اور سلامت روی کا مظاہرہ کرنا، سادہ غذا و خوراک کو قبول کرنا وقتی تقاضوں کو سمجھنا، معاشرے میں امن و سلامتی کو ترجیح دینا، چغل خوری اور بہتان طرازی سے بچنا، چوری اور خیانت کو برا سمجھنا، خود غرضی، آسائش اور عیش کوشی سے مجتنب رہنا۔ یہ باتیں ان کے ہاں ناپید ہیں ، حیرانی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں نے کیسی عجیب مخلوق کو جنم دیکر ہمارے ملک و ملت کو ایک عجیب تباہ کن کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے۔