کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 5
بنکوں ، دوکانوں غرضیکہ سب جگہ بد کردار مرد و عورت اکٹھے کام کرتے اور مادرِ پدر آزاد زندگی بسر کرتے ہیں ۔ بلکہ تکلف بر طرف نوڈ اِزم (NOODISM) کی تحریک یورپ بھر میں رائج ہو رہی ہے۔ وہ ایسی کلبیں ہیں جہاں مرد عورت مادر زاد ننگے رہتے ہیں اور اِسے فطری اور پیدائشی قرار دیتے ہیں ۔ یورپ کے سینماؤں میں مار دھاڑ کی فلمیں ، جرائم کی ٹریننگ، چوری، ڈاکہ، لوٹ کھسوٹ، اور رہزنی کی عملی تریت کے لئے سینمائی مناظر دکھائے جاتے ہیں ۔ اب یہی چیز ہم نے انگریزی طرز تعلیم کے ذریعہ اپنے ملک میں رائج کر لی ہے۔ تعمیر اخلاق میں تعلیم کا حصہ: انگریز کی ہندوستان میں آمد سے پہلے ہماری ساری تعلیم قرآن کی تعلیم پر مشتمل تھی۔ مسجدیں ہمارے مراکز تھے۔ اُردو کی تعلیم بھی ہمارے اخلاقیات عالیہ کی علمبردار تھی، سبق سبق میں مائل اور اخلاقی قصے کہانیاں پڑھائی جاتی تھیں ۔ فارسی، عربی سیکھنا ہر طالب علم کے لئے ضروری ہوتا تھا۔ ہندو اور غیر مسلم بھی ہماری مساجد میں مسلمان طلبا کے ساتھ پڑھنا قابل فخر سمجھتے تھے، ہم نے خود ایسے ہندو اہل قلم حضرت کو دیکھا ہے اور کئی ہندو مصنفوں کی کتابوں میں ان کی سیرت و سوانح کے ذیل میں پڑھا ہے کہ انہوں نے عربی، فارسی اور اُردو کی تعلیم مسجد کے پیش امام سے حاصل کی۔ خود انگریز کے ہندوستان سے رخصت ہونے کے وقت تک ہماری سکولی تعلیم میں اعلیٰ درجہ کی عربی فارسی کی تعلیم کا غالب عنصر تھا۔ فارسی میں گلستان، بوستان، پند نامہ شیخ عطار وغیرہ کتابیں طلبا کو از بر تھیں ۔ چھ کلمے، نمازِ باترجمہ، روزمرہ کے مسائل، غرضیکہ قریباًقریباً زندگی کے اکثر معاملات میں رہنمائی اور اخلاقی تعلیمات سے واقفیت ہمارے طلبا کو میسر تھی۔ موجودہ نصاب سے اخلاقی تعلیم کا اخراج: جونہی فرنگی یہاں سے رخصت ہوا ہم نے چن چن کر اپنے نصاب کو دین و اخلاق کی تعلیم سے پاک کر دیا۔ اور یورپین کلچر کی ایک برائی کو اس میں سمونے کی کوشش شروع کر دی۔ اب حد یہ ہے کہ نہ صرف ہمارے