کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 46
کی علل کو زیر بحث لائے پھر اس سے استنباط کردہ فقہ، اختلافِ علما اور ان کے دلائلِ و براہین تفصیل وار بیان کئے اور حل طلب لغت کا حل فرمایا، اِس طریق پر عشرہ مبشرہ، اہلِ بیت اور موالی کے مسانید تیار ہوئے مسند ابن عباس کا کچھ حصہ لکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ اِسی طرح ایک اور تصنیف ’’کتاب البسیط‘‘ کے نام سے لکھنا شروع کی تھی اس کی صرف کتاب الطہارۃ ہی تقریباً تین ہزار صفحات پر ختم ہوئی، ابھی کتاب الصلوٰۃ کا بیشتر حصہ اور کتاب الحکام والمحاضر والسجلات ہی لکھنے پائے تھے کہ داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ ان کی تفسیر کے متعلق ابو حامد اسفرائینی کہتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی تفسیر ابن جریر حاصل کرنے کیلئے چین تک سفر کرے یہ محنت اس کے مقابلے میں کچھ زیادہ نہیں ۔ انتقالِ پر ملال: ابن کامل کہتے ہیں ، امام ابن جریر نے بروز اتوار ۲۸ شوال المکرم ۳۱۰؁ھ عصر کے قریب داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور حبہ یعقوب میں واقع اپنے مکان میں دفن ہوئے۔ صورت و حلیہ: آپ کا رنگ گندمی تھا اور سیاہی مائل آنکھیں بڑی بڑی اور موٹی تھیں ، جسم کے پتلے دراز قد اور بڑے فصیح الکلام تھے، چونکہ بال زیادہ تر سیاہ تھے، اس لئے مہندی وغیرہ کا خضاب نہیں لگاتے تھے۔ جنازہ میں ازدحام: آپ کے جنازہ میں لوگ اس کثرت سے شریک ہوئے کہ ان کی صحیح تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کئی مہینوں تک دِن رات آپ کی قبر پر نمازِ جنازہ پڑھی جاتی رہی۔ مراثی: اوبأ اور اربابِ دین میں سے بہت سے لوگوں نے آپ کی وفات حسرت آیات پر مرثئے لکھے، ابو سید ابن الاعرابی فرماتے ہیں : حَدَثٌ مُفْظِعٌ وَّ خَطْبٌ جَلِیْلٌ دَقَّ عَنْ مِّثْلِہ اِصْطِبَارُ الصُّبُوْر ایک خوفناک حادثہ اور عظیم سانحہ پیش آیا ہے کہ اس میں انتہائی صبر کرنے والے کا صبر بھی جواب دے گیا ہے۔ قَامَ نَاعِی الْعُلُوْمِ جَمِیْعاً لَّمَّا قَامَ نَاعِی مُحَمَّدِ بْنِ جَرِیْر جب امام ابن جریر رحمہ اللہ کی موت کی خبر دینے والے نے خبر دی تو اس نے گویا تمام علوم کے مر جانے کی خبر دی۔ علامہ ابن دُرید نے بھی ایک دلگداز مرثیہ کہا جس میں فرماتے ہیں :۔