کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 45
ہار گئے ہیں ، پھر تقریباً ۳ ہزار اوراق میں املا کرائی جو تاریخ طبری کے نام سے مشہور ہے، اس کے بعد جب تفسیر املا کرانے لگے تو پھر تلامذہ سے یہی بات کہی اور بالآخر تاریخ کے برابر املا کرائی جو تفسیر ابن جریر کہلائی، چالیس سال تک آپ کا معمول یہ رہا کہ وہ ہر روز چالیس صفحے لکھتے تھے، ان کے شاگرد ابو محمد فرغانی کہتے ہیں کہ امام ابن جریر کے شاگردوں نے ان کی بلوغت سے لیکر انکی وفات تک حساب لگایا اور انکی تصنیفات کو اس مدت پر تقسیم کیا تو ثابت ہوا کہ وہ ہر روز ۱۴ صفحے لکھا کرتے تھے۔ فرغانی کہتے ہیں ، آپ نے بغداد میں دو سال تک امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب کی خوب نشر و اشاعت کی جس کے نتیجہ میں عوام نے اسے بطیف خاطر قبول کر لیا، پھر جوں جوں آپ کا علم وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا، تقلید سے آزاد ہو کر اور اپنے خداداد اجتہاد سے کام لے کر وہ مسلک اختیار کیا جسے اپنی کتابوں میں درج فرمایا ہے آپ کو منصب قضائ پیش کیا گیا لیکن آپ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کی امامت کا منکر واجب القتل ہے: امام محمدبن علی بن سہل فرماتے ہیں ، میں نے امام ابن جریر سے سنا ہے فرماتے تھے جو شخص یہ کہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہدایت کے امام نہیں تھے اسے قتل کر دیا جائے۔ تصانیف: فرغانی کہتے ہیں آپ کی تصانیف میں سے مندرجہ ذیل کتابیں آپ کے ہاتھ سے پایۂ تکمیل کو پہنچیں ۔ (۱) تفسیر (المعروف بتفسیر ابن جریر) (۲) تاریخ (المعروف بہ تاریخ طبری) (۳) کتاب القرأت (۴) کتاب العدد والتنزیل (۵) کتاب اختلاف العلما (۶) کتاب تاریخ الرجال (۷) کتاب لطیف القول فی الفقہ اِس میں اپنا پسندیدہ اور اختیار کردہ مسلک درج فرمایا ہے۔ (۸) کتاب التبصیر فی الاصول اِن کے علاوہ کتاب تہذیب الآثار لکھنی شروع کی تھی۔ یہ آپ کی تصانیف میں سے ایک عمدہ ترین تصنیف ہے اگر مکمل ہو جاتی تو یقیناً آپ کا ایک عظیم علمی شاہکار تصور ہوتی۔ اس کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحیح صحیح احادیث سے لکھنا شروع کیا تھا، ہر حدیث پر محدثانہ کلام کیا۔ اس کے تمام طرق جمع کئے اِس