کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 44
اللہ تعالیٰ کے فرمان۔۔۔ وَاُوْتَیْتْ مِنْ کُلِّ شَیٍٔ (اسے ہر چیز دی گئی تھی) ۔۔۔ میں داڑھی اور مردانہ عضو وغیرہ مستثنیٰ ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فرمان ۔۔۔ قُدَمِّرُ کُلَّ شَیٍٔ (آندھی ہر چیز کو برباد کر گئی) میں پہاڑ اور آسمان مستثنیٰ ہیں ، اور یہ اندازِ گفتگو فصیح اور کثیر الاستعمال ہے۔ ایسے ہی یہ بھی بدیہی ہے کہ اگر کوئی آدمی حلف کرے کہ عورت جو کچھ کہے گی میں بھی وہی کہوں گا، پھر عورت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرے اور رسولوں کو گالیاں دے لیکن مرد ایسا کہنے سے سکوت اختیار کرے تو وہ حانث نہیں ہو گا الایہ کہ وہ ایسی چیزوں کی بھی اپنے حلف میں نیت کرے (العیاذ باللہ) موجودہ صورت میں امام داؤد، امام ابن حزم اور شیعہ حضرات کے نزدیک مرد حانث نہیں ہوتا اور عورت بدستور اس کی بیوی رہتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک طلاق کی قسم لغو ہے، قسم صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی ہونی چاہئے اور بس! ہمارے ہم عصر علما میں سے ایک امام اس طرف گئے ہیں کہ جب کوئی آدمی کوئی کام کرنے پر بیوی کو طلاق دینے کی قسم کھالے تو اس کام کے کرنے پر اسے کفارہ دینا پڑتا ہے، طلاق واقع نہیں ہوتی، ہاں وہ طلاق جو کسی ترغیب یا ترہیب پر معلق نہیں یا اس نے جملہ شرطیں بولنے سے جزا کا ارادہ کیا ہے قسم کی نیت نہیں کی جیسے یوں کہے اگر تو زنا کرے تو تجھے طلاق ہے یا اگر تو نماز چھوڑ دے تو میری طرف سے تجھے طلاق ہے تو ان کاموں کے سرزد ہونے سے اس کی بیوی کو طلاق واقع ہو جائے گی۔ مگر جہاں تک ہمیں معلوم ہے بعض سلف کے نزدیک غلاموں کو آزاد کرنے یا پیدل حج کو جانے یا سارا مال صدقہ میں دینے کی قسم کھانے پر تو کفارہ ہو سکتا ہے، مگر طلاق کی قسم کھانے پر کسی سے کفارہ منقول نہیں ۔ وسعت معلومات اور مسلکِ اجتہاد کا اتباع: عبد اللہ بن احمد سمسار کا بیان ہے کہ امام ابن جریر نے اپنے تلامذہ سے پوچھا ’’تاریخ عالم کا شوق رکھتے ہو تو تحریر کر دوں ؟‘‘ بولے ’’یہ کتنی جلدوں میں مکمل ہو گی‘‘ فرمانے لگے ’’تقریباً تیس ہزار اوراق میں ۔‘‘ شاگردوں نے جواب دیا اس قدر ضخیم کتاب کا مطالعہ کرنےسے پہلے عمریں بیت جائیں گی، کہنے لگے انا للّٰه ماتت الھمم، لوگ ہمت