کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 43
ایک فقہی اشکال اور اس کا حل: قائد ابن منجو کہتے ہیں مجھے ابن مزدق کے غلام نے بتایا کہ ایک دفعہ میرے آقا نے ایک لونڈی خرید کر میرے ساتھ اس کا نکاح کر دیا، مجھے اس سے بے حد محبت تھی لیکن اسے مجھ سے نفرت تھی، ایک دن تنگ آکر میں نے اس سے کہہ دیا کہ طلاقِ ثلاثہ کے متعلق جو کچھ تو مجھ سے کہے گی میں وہی کہہ دوں گا، میں تیری اذیتیں کب تک برداشت کروں ؟ اس نے فوراً انت طالق ثلاثاً (تجھے تین بار طلاق ہے) کہہ دیا۔ یہ سن کر حیرت سے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا کیونکہ میں اسے طلاق دینا نہیں چاہتا تھا، اب بڑی مشکل میں پھنس گیا، کسی نے کہا امام ابن جریر رحمہ اللہ کی خدمت میں جاؤ اور ان سے اپنی مشکل بیان کرو، چنانچہ میں انکی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا ’’تم اپنی بیوی کے سات رہ سکتے ہو کیونکہ تمہارے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ گویا تم نے کہا انت طالق ثلاثا ان طلقتک (تجھے تین بار طلاق ہے اگر میں تجھے طلاق دوں ) ابن عقیل نے یہ واقعہ ذِکر کیا ہے اور کہا ہے اِسکا جواب یہ بھی ہے کہ تم بعینہٖ وہی الفاظ کہو جو اس نے کہے ہیں ، یعنی انت طالق ثلاثا تا کی فتحہ کے سات یہ خطاب چونکہ مرد کو ہے اس لئے عورت کو طلاق نہیں ہو گی۔ میں کہتا ہوں کہ اگر انتِ طالق ثلاثا کہا اور ارادہ استفہام کا کرے یا انتِ طالق ثلاثا کہے اور نیت کرے کہ تو میری قید سے آزاد ہے تو طلق یعنی دروزہ میں مبتلا ہے تو ان صورتوں میں طلاق واقع نہیں ہو گی۔ جو لوگ قسم کے سبب اور حالف کی نیت کا اعتبار کرتے ہیں ، ان کے نزدیک ایک جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مرد پر وہ بات کہنا لازم نہیں جو عورت نے کہی ہے، کیونکہ قرینہ حال سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ جب عورت اس سے کوئی تکلیف دہ بات کہہ کر اذیت پہنچائے گی تو وہ بھی اسے ایسی ہی تکلیف دہ بات سے اذیت پہنچائے گا چونکہ موجودہ صورت میں طلاق دینا عورت کے لئے تکلیف دہ نہیں بلکہ خوش کن ہے اور مرد کے لئے تکلیف دہ بات ہے۔ لہٰذا بداہتہً طلاق اس سے مستثنیٰ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جب کوئی متکلم کلام کرتا ہے تو اس کے عموم میں سے کچھ چیزیں مستثنیٰ ہوتی ہیں جن کا وہ ارادہ ہی نہیں کرتا، بلقیس ملکہ صنعا کے بارے میں