کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 42
میں کوئی ان کے مقابل نہیں تھا، کتاب اللہ کے حافظ، معانی کے عالم، احکامِ قرآن کے شناسا، حدیث اور اس کی اسانید، صحیح و ضعیف اور ناسخ و منسوخ کی خوب معرفت رکھنے والے، صحابہ و تابعین کے کارناموں سے آگاہ جنگی و تاریخی حالات سے باخبر تھے، تاریخ اُمم میں ایک بہت بڑی مشہور کتاب اور قرآن کی ایک عظیم و بے نظیر تفسیر کے مصنف ہیں ، ان کی ایک کتاب ’’تہذیب الآثار‘‘ یہ اِتنی مفید کتاب ہے کہ میں نے اس موضوع پر اس جیسی دوسری کتاب نہیں دیکھی، مگر افسوس کہ مکمل نہیں ہو سکی۔ ان کے علاوہ اصول و فروع میں ان کی بے شمار کتابیں ہیں ۔ ولہ اختیار من اقوال الفقھائ امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں :۔ ’’میں نے روئے زمین پر ابن جریر سے بڑا عالم کوئی نہیں دیکھا۔‘‘ ابو محمد فرغانی کہتے ہیں :۔ ’’امام ابن جریر رحمہ اللہ بڑی بڑی ایذا رسانیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کی پروا نہیں کرتے تھے، اہلِ علم اور متدین حضرات آپ کے علم، زہد اور ترکِ دنیا کے معترف تھے۔ آپ طبرستان میں اپنے والد کے چھوڑے ہوئے مال میں سے اپنے حصے پر قانع تھے۔‘‘ تفقہ اور سیرت کے چند گوشے: کہتے ہیں ایک دفعہ خلیفہ مکتفی نے ایسا وقف نامہ تحریر کرانا چاہا جس پر تمام علما کا اتفاق ہو، کسی کو اس سے اختلاف نہ ہو، اس مقصد کے لئے امام ابن جریر رحمہ اللہ کی خدمات حاصل کی گئیں تو آپ نے ایسی تحریر لکھ دی جو سب کے نزدیک قابل قبول تھی۔ اس پر آپ کی خدمت میں گراں قدر عطیہ پیش کیا گیا، مگر آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا، خلیفہ نے کہا، اپنی کوئی حاجت بیان فرمائیے اسے پورا کر دیا جائے گا، آپ نے فرمایا، میری یہ درخواست ہے کہ جمعہ کے دن لوگوں کو مانگنے سے منع کر دیا جائے، چنانچہ جمعہ کے دِن مانگنا حکماً بند کر دیا گیا۔ اسی طرح ایک دفعہ وزیر سلطنت نے آپ کو فقہ میں کتاب لکھنے کے لئے کہا تو آپ نے ’’کتاب الخفیف‘‘ لکھ کر اس کے سامنے پیش کی۔ اس پر اس نے آپ کو ایک ہزار دینار دینا چاہا مگر آپ نے لینے سے انکار کر دیا۔