کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 40
وہ واقعی ایک خوبی ہے لیکن یہ ایک محدث کی فنی خوبی نہیں بلکہ ایک فقیہ اور صاحب الرائے کی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حسب ضرورت ان کے پاس احادیث نہیں تھیں اور سارا کام انہوں نے اپنے آئمہ سے حسنِ ظن کی بنیاد پر ان کے افکار کے مطالعہ سے چلایا۔ وذلک انہ لم یکن عندھم من الاحادیث والآثار ما یقدرون علی استنباط علی الاصول التی اختارھا اھل الحدیث ولم تنشرح صدورھم للنظر فی علمائ البلدان وجمعھا والبحث عنھا واتھموا انفسہم فی ذلک وکانوا اعتقدوا فی ائمتہم انہم فی درجۃ الاولیائ من التحقیق (حجۃ اللہ البالغہ ص ۱۲۱) خدمتِ حدیث تو بڑی دولت ہے، حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو تو اصحاب الرائے سے یہ بھی شکایت ہے کہ وہ ایسی حدیثوں کو چھپانے کی بھی کوشش کرتے ہیں ، جو ان کے خلاف پڑتی ہیں ۔ الرد علی من انکر رفع الایدی فی الصلوٰۃ عند الرکوع واذا رفع رأسہ من الرکوع وابھم علی العجم فی ذلک تکلفا لما لا یغنیہ فیما ثبت عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فیہ فعلہ (روایۃ من اصحابہ (جز ارفع الیدین ص ۳) اصل بات یہ ہے کہ فقہ اور حدیث دونوں شعبے ہیں ۔ دونوں جداگانہ فن ہیں اور اپنی اپنی جگہ دونوں کی ضرورت ہے۔ لکل فن رجال اس لئے اگر کسی ایک میں کچھ کمی ہے تو کوئی بات نہیں ۔ اس لئے جو بزرگ حدیث کے سلسلے میں ’’فنی مہارت‘‘ کے فقدان پر غم کھاتے ہیں ، غلط کرتے ہیں ، یا اگر اتنی احتیاط برت لی جائے کہ جب حدیث اہل فن کی شہادت کی رو سے صحیح ثابت ہو جائے تو اس کا خلاف نہ کیا جائے، تو پھر طعنے دینے والی بات ہی نہیں رہتی جو جس کے قابل ہے وہ اس میں اپنی محنت کا حق ادا کرے اور جس باب میں کوئی دوسرا سند ہے۔ اس میں اس کی طرف رجوع کیا جائے، قرآن و حدیث کی بنیاد پر اجتہاد ہوتا ہے، اس لئے جس حدیث میں بحث کرنا مقصود ہو، اگر خود کو اس سلسلہ میں اعتماد نہ ہو تو اہل فن سے پہلے اس حدیث کے مقام و مرتبہ کا یقین کر لیا جائے تاکہ وقت اور محنت ضائع نہ ہو۔