کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 4
کو مذہب پر بالا دستی اور اسلامی نظریات کو کھینچ تان کر ان کے مطابق کر دینا ہی معارف پروری ہے، وہ خود بدلنا نہیں چاہتے ہیں ۔ حتیٰ کہ خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور کی قرآنی تاویلات اور دنیوی تعلیمات سے ہر جدت کا جواز پیدا کرنا ان کا بزعم خویش علمی مشغلہ ہو گیا ہے، بلکہ حسن پرستی، امرد پرستی، گانا بجانا، راگ و رنگ اور آلات مزامیر تک کو اسلام سے ثابت کیا جا رہا ہے۔ یہ سب ہماری انگریزی تعلیم اور انگریزی ذہنیت پر مبنی نصاب تعلیم کی برکات ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ جس قسم کی زبان مروج ہو گی اسی قوم کی تہذیب کی ترویج ہو گی۔ ظاہر ہے کہ جب پاکستان میں ہم نے انگریزیت کو سر کا تاج بنا کر رکھا ہے تو یہاں مکہ و مدینہ عرب و حجاز اور اسلام و قرآن کے تمدن کو اپنایا نہیں جا سکتا۔ تعجب کا مقام ہے کہ جس مذہب (اسلام) کو اول روز سے ہی عیسائیت و یہودیت نے اپنا حریف اور دشمن نمبر ۱ قرار دے رکھا ہے ہم نے اسی دشمن کے ہاں اپنی متاع ایمان چند چمکدار کھوٹے سکوں کے عوض بیچ دی ہے۔ حالانکہ ہمارا قرآن بار بار ہمیں یہود و نصاریٰ سے الگ رہنے کی دعوت دے رہا ہے۔ یورپی معاشرہ: تعلیم کو انسان کی سیرت سازی اور تعمیر اخلاق میں بڑا دخل ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات نے تمام اخلاقی برائیوں کو قلع قمع کیا ہے، بلکہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ میں اخلاق کی تکمیل ہی کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ اس کے برعکس یورپین زبان اپنے مخصوص کلچر کی حامل ہے اور اس کا کلچر یورپ کے ڈانس گھروں میں بخوبی جا کر دیکھا جا سکتا ہے، جہاں ہر شخص اس بارہ میں آزاد ہے کہ ہر شخص کی ماں ، بہن، بیٹی، بیوی کے ساتھ بازو میں بازو ڈال کر سینہ سے سینہ ملا کر نہایت شرمناک انداز میں گھنٹوں ناچ کر سکتا ہے۔ اور اسے ایک اعلیٰ درجہ کا معاشرتی شرف سمجھا جاتا ہے۔ یورپ میں زنا کاری، اغوائ، بالجبر، مرد و عورت کا کھلا اختلاط، سڑکوں پر حیا سوز شت، سینماؤں میں فحاشی کی نمائش، باغات اور سیر گاہوں میں مخلوط شرمناک تفریح، دفتروں ، تجارتی اداروں ، تعلیمی مرکزوں ،