کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 39
اور معروف ہیں ، اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ’’اصحاب الرائے‘‘ تھے۔ اور اصحاب الرائے کے مقلد تھے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اسلافِ احناف احادیث کے بالکل کورے تھے، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ رائے و قیاس کا میدان ان کی افتاد طبع کے لحاظ سے ان کے لئے زیادہ سازگار تھا۔ اس لئے اس میدان میں وہ خوب چمکے اور پھلے پھولے، لیکن حدیث کے سلسلہ میں واجبی سا واسطہ رکھا، وہ بھی فقہی انداز کا، ایک محدث کی طرح فنی نہیں تھا۔ بلکہ احناف کے بعض اکابر کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بعض اوقات احادیث کی طرف محض اس لئے توجہ دی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حدیث نہیں جانتے یا محض اپنے مسلک کی حمایت کے لئے ان کو اس باب میں کچھ کام کرنا پڑا۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ’’مرقات شرح مشکوٰۃ‘‘ کے لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ چونکہ اس باب میں زیادہ کام شافعیوں نے کیا ہے۔ اس لئے اس سے احناف کے سلسلے میں غلط تاثر پیدا ہو گیا ہے۔ اس لئے مرقات لکھ کر اس میں اِس تاثر کا اذالہ کرنا چاہتا ہوں ، ان کی عبارت یہ ہے:۔
وایضا من البواعث ان غالب الشراح کانوا شافعیۃ فی مطلبھم وذکر والمسائل المتعلقۃ بالکتاب علی منہاج مذبہم ۔۔۔۔ وسمو الحنفیۃ اصحاب الرامی علی ظن امنھم ما یعملون بالحدیث بل ولا یعلمون الروایۃ والحدیث لا فی القدیم ولا فی الحدیث ۔۔۔۔ فاجبت ان اذکر ادلتہم وابین مسائلہم وادفع مخالفتہم لئلا تیوھم العوام الذین لیس لہم معرفۃ بالادلۃ الفقہیۃ ان المسائل الحنفیۃ تخالف الدلائل الحنیفیۃ۔ (مقدمہ مرقات ص ۳)
لیکن یہ ایک عجیب لطیفہ ہے، مگر ساتھ ہی اس مشغلہ کا ذِکر بھی کر گئے ہیں ، جو ایک محدث سے زیادہ اصحاب الراہی کا ہو سکتا ہے۔ وہ یہ کہ احناف ظواہر حدیث پر قناعت نہیں کرتے بلکہ بڑی دِقت نظر سے کام لیتے ہیں اور خوب باریکیاں پیدا کرتے ہیں ۔ عبارت یہ ہے:۔
نعم من رأد ثاقبھم الذی ھو معظم مناقبہم انہم ما تشبشوا بالظواھر بل وتقوا لنظر فیھا بالبحث عن السرائر وکشفرا عن وجوہ المسائل نقاب الستائر (مقدمہ ص۳)
غور فرمائیے! جس الزام سے وہ بھاگتے تھے اسے خود ہی ثابت کر دیا ہے، جس خوبی کا انہوں نے ذِکر