کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 38
ہندوستان میں اسلامی کومت کا تخت جس قوم نے بچھایا وہ غزنی اور غور سے آئی، یہ وہ بلاد ہیں جہاں فقہ اور اصول فقہ کا ماہر ہوتا۔ علم و فن کا طغرائے امتیاز تھا۔ یہی سبب ہے کہ فقہی روایات کا پایہ بلند تھا، علم حدیث کی طرف کوئی توجہ نہیں تھی اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہو سکتا ہے کہ: ’’غیاث الدین تغلق کے دربار میں مسئلہ ’’سماع‘‘ کی نسبت مناظرہ پیش آیا، ایک طرف شیخ نظام الدین اولیا رحمہ اللہ اور دوسری طرف تمام علمائے دہلی تھے۔‘‘ شیخ فرماتے ہیں کہ میں جب کوئی حدیث استدلالاً پیش کرتا تھا تو وہ لوگ بڑی جرأت سے کہتے تھے، کہ اس شہر میں حدیث پر فقہی روایات مقدم سمجھی جاتی ہیں ۔ کہیں کہتے تھے کہ یہ حدیث شافعی کی متمسک بہ ہے۔ اور وہ ہمارے علما کا دشمن ہے۔ ہم ایسی حدیثیں نہیں سننا چاہتے۔ شیخ فرماتے ہیں کہ جس شہر کے علما میں اس درجہ مکابرہ و عناد ہوو وہ کیونکر آباورہ سکتا ہے۔ وہ تو اس قابل ہے کہ بالکل تباہ و برباد ہو جائے۔‘‘ ضیا برنی نے اپنی تاریخ میں علاؤ الدین خلجی کے عہدِ حکومت کا واقعہ نقل کیا ہے کہ:۔ مولانا شمس الدین ترک ایک مصری محدث ہندوستان میں علم و حدیث کی ترویج کے لئے ارادہ سے ملتان تک آکر واپس چلے گئے، مگر چلتے وقت بادشاہ کو ایک رسالہ لکھ کر بھیج دیا جس میں اس پر بہت غیرت دِلائی تھی کہ ہندوستان میں حدیث کی طرف سے علما میں بڑی بے اعتنائی پھیلی ہوئی ہے۔ دنیا ساز مولویوں نے بادشاہ تک اِس رسالہ کو بھی نہ پہنچنے دیا۔‘‘ (ہندوستان کی قدیم اسلامی درسگاہیں صفحہ ۹۲) مولانا ابو الحسنات نے ایک اور مقام پر ترویجِ حدیث کے سلسل میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی مساعی کا ذِکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’وہ ہندوستان سے عرب گئے، اور وہاں تین برس رَہ کر علمائے حرمین شریفین سے فن حدیث کی تکمیل کی اور یہ تحفہ ہندوستان کے لئے لائے، انہوں نے اور ان کی اولاد نے برابر اس کی اشاعت کی مگر افسوس ہے کہ ناکامی ہوئی۔‘‘ (ایضاً صفحہ ۹۴) ہمارے نزدیک اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ ہندوستان میں اکثر مقلد تھے، کیونکہ مقلد تو شوافع حنابلہ اور مالکی بھی تھے مگر احادیث کے سلسلہ میں ان کی جو خدمات ہیں وہ ان کی بہ نسبت کافی وزنی