کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 37
دسویں صدی ہجری تک ہند میں علم حدیث کی طرف توجہ کم رہی! عزیز زبیدی، واربرٹن شروع سے ہند کی طرف مسلمانوں کی نگاہیں اُٹھ رہی تھیں ، چنانچہ ۱۵ ؁ھ / ۶۳۶ع میں عمان اور بحرین کے گورنر کے ایما پر حکم شفقی نے بمبئی کی سرزمین (تھانہ) پر حملہ کیا اور ۹۳ ؁ھ میں محمد بن قاسم نے اپنی مشہور منجنیق ’’العروس‘‘ کے ذریعے حملہ کر کے دیبل (ٹھٹھ) کا قلعہ فتح کیا اور ہند میں اپنے قدم جما لئے۔ اس کے بعد بتدریج مسلمانوں کی آمدورفت بڑھتی رہی اور علاقے کے علاقے مسلمان ہوتے چلے گئے۔ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان تاجر شاہزادگی کے بجائے اسلامی فریضۂ تبلیغ کی خدمات انجام دیتے اور زندگی کا کوئی اسوۂ حسنہ دکھاتے تو ہند میں آج مسلمان اقلیت کے بجائے اکثریت میں ہوتے، بلکہ ہو سکتا ہے کہ سارا ہند ہی حلقہ بگوش اسلام ہوتا۔ جب مسلمانوں نے یہاں قدم جما لئے تو علما اور صلحائے اُمت نے قرآن علم و عمل کا فیضانِ عام کیا اور بہت سے دینی علوم کی بھی خاص نشر و اشاعت کی مگر افسوس! دسویں صدی ہجری تک علم حدیث کی طرف مناسب توجہ نہ دی گئی۔ اِس کے اسباب کیا تھے؟ ذیل کی تاریخی سطور میں ان کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ، یہ اقتباس ایک ایسی تاریخی کتاب سے لیا گیا ہے جو ندوی افاضل کی زیر نگرانی مرتب ہوئی تھی۔ اس کے مصنف مولانا ابو الحسنات ندوی ہیں ، وہ لکھتے ہیں ’’جیسا کہ ہمارے زمانہ میں منطق و فلسفۂ معیار فضیلت ہے۔ ویسا ہی اس زمانہ میں حنفی فقہ اور اُصولِ فقہ معیارِ فضیلت تھا، حدیث میں صرف مشارق الانوار کا پڑھ لینا کافی سمجھا جاتا تھا، اور جس خوش نصیب کو مصابیج ہاتھ آجاتی تھی وہ امام الدنیا فی الحدیث کے لقب کا مستحق ہو جاتا تھا۔ اصل یہ ہے کہ اُس زمانہ کے نصابِ تعلیم میں جو خصوصیات نظر آتی ہیں وہ فاتحین کے مؤثر ذوق کا نتیجہ تھا۔