کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 35
نے یہ بھی لکھا ہے کہ خیبر سے یہود کے اخراج کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازواج مطہرات کو اختیار دیدیا تھا کہ ان میں سے جو چاہے وہ پیداوار حسب سابق لیتی رہیں اور جو چاہے اپنے حصے کی زمین لے لیں پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے زمین لے لی۔[1] امام بخاری نے یہ بھی روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی زمین بٹائی پر دیتے تو مختلف طریقوں سے دیتے، کبھی اپنے پاس سے بیج بھی دیتے اور کبھی مزارع ہی بیج فراہم کرتا۔ [2] پھر امام بخاری اپنی صحیح میں فرماتے ہیں : ’’ما بالمدینۃ اھل بیت ہجرۃ الا یزرعون علٰی ثلث وربع وزارع علی وسعد بن مالک و عبد اللّٰه ابن مسعود وعمر بن عبد العزیز والقاسم وعروۃ وآل أبی بکر وآل عمر وآل علی وابن سیرین ‘‘[3] ترجمہ: ’’مدینہ میں مہاجرین کا کوئی ایسا گھر نہ تھا جو ثلث یا ربع پر مزارعت نہ کرتا ہو، جو حضرات علی وسعد بن مالک و عبد اللہ بن مسعود و عمر بن عبد العزیز وقاسم وعروۃ اور آل ابی بکر و آل عمر و آل علی وابن سیرین رضی اللہ عنہم سب کے سب اپنی زمینوں کو بٹائی پر کاشت کے لئے دیا کرتے تھے۔‘‘ اب ہم پوچھتے ہیں کہ مسعود صاحب جو بلا استثنائ ہر قسم کے مزارعت کے طریقے کو نا انصافی قرار دے رہے ہیں تو کیا وہ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلفائے راشدین اور اصحاب
[1] حوالۂ مذکور صفحہ ۴۱۰، صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیبر کی زمین کو تقسیم کر دیا اور ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ چاہے وہ پیداوار کا حصہ لے لیا کریں یا پھر ان کو زمین کے قطعات دیدئے جائیں گے، بعض نے سالانہ پیداوار لینا پسند کیا۔ لیکن حضرت عائشہ اور حفصۃ رضی اللہ عنہما نے زمین لے لی (صفحہ ۲۱۰، صحیح مسلم شرح نووی) [2] حوالۂ مذکور صفحہ ۴۰۸، [3] حوالۂ مذکور صفحہ ۴۵۷،