کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 34
وَسَعْدٌ وَّابْنُ مَسْعُوْدٍ وَخَبَّابٌ وَّحُذَیْفَۃُ وَمُعَاذٌ بِحَضْرَۃِ جَمِیْعِ اصَّحَابَۃِ (رضوان اللّٰه علیہم اجمعین)۔ ترجمہ: ’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری فعل وصال مبارک تک یہ تھا کہ وہ زمین اور اس کی پیداوار کو نصف بٹائی پر دیتے تھے۔ اور اسی پر حضرت ابو بکر و عمر اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عمل کرتے رہے ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر میں نصف بٹائی پر زمین دی پھر ابو بکر و عمر و عثمان و علی (رضی اللہ عنہم) نے دی۔۔۔ راوی نے حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ہمارے پاس معاذ رضی اللہ عنہ یمن میں آئے اور زمین نصف اور چوتھائی بٹائی پر دی اور اِسی پر ہم آج تک عمل کر رہے ہیں ۔ امام ابو محمد کہتےہیں : حضور صلی اللہ علیہ وسلم وصال پا گئے تو یمن میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ مزارعت پر زمین دیتے تھے۔۔۔ خباب بن الارت رضی اللہ عنہ و حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ وابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی اپنی سفید زمینوں کو ثلث اور چوتھائی پر مزارعت کے لئے دیا کرتے تھے، یہ تمام کے تمام حضرات اور ابو بکر و عمر و عثمان و علی و سعد و ابن مسعد و خباب و حذیفہ و معاذ رضی اللہ عنہم تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے اپنی زمینوں کو مزارعت پر دیا کرتے تھے۔‘‘ دیکھئے! یہ بیان اس شخص کا ہے جسے سوشلسٹوں نے بھی عظیم اور لاثانی مجتہد کا خطاب دیا ہے۔ ایک دوسری کتاب میں ابن حزم نے دعویٰ کیا ہے کہ مزارعت کے جواز پر اجماع ہو چکا ہے۔ [1] امام بخاری رحمہ اللہ کی صراحت: امام بخاری نے اپنی صحیح میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو مزارعت سے منع نہیں فرمایا تھا،[2] امام بخاری
[1] الاحکام فی اصول الاحکام، جلد اوّل، صفحہ ۵۳۰، [2] فتح الباری، جلد ۵، صفہ ۴۱۱، طبع مصر ۱۹۵۹،