کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 29
تھے ان میں سب سے زیادہ مالدار حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تو غنی مشہور ہی اپنی دولتمندی اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے تھے، پھر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ تھے، جن کے متعلق بخاری کی روایت ہے کہ ۵ کروڑ سے زائد مالیت کی جائیداد چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ [1]پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک لڑکی کو لاکھ درہم کا جہیز دیا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ اس زمانے میں جو بھی دولت مند تھے، وہ سب کے سب کبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ان لوگوں کے بڑے بڑے وظیفے مقرر کر رکھے تھے، یعنی دس دس ہزار، [2] (۲) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد صرف عشرہ مبشرہ ہی میں سے خلیفہ بنے تھے، اس لئے مسعود صاحب کا، اشارہ ان ہی اصحاب رضی اللہ عنہم کی طرف ہو سکتا ہے۔ پھر غور فرمائیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت پر کسی بھی دولت مند کو سزا نہیں دی اور نہ کسی پر الزام لگایا، جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کسی دولت مند صحابی پر شک ظاہر نہیں کیا اور نہ کسی مورخ نے آج تک اشارہ کیا تو آخر مسعود صاحب ۱۴۰۰ سال بعد یہ الزام کس بنا پر عائد کر رہے ہیں ، کیا یہ کبارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور عشرہ مبشرہ کی توہین نہیں ؟ کیا ان کے خیال میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قاتلوں کے فعل پر پردہ ڈالا؟ حقیقت یہ ہے کہ مسعود صاحب مارکس کے فلسفلے کو ثابت کرنے کے لئے ان صحابہ رضی اللہ عنہم پر گھناؤنا الزام لگا رہے ہیں ، جن کے جنتی ہونے کی بشارت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ اشتراکیوں کی نظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت: کیونکہ مارکس کا فلسفہ ہے کہ دنیا کے سب
[1] کتاب الجہاد بخاری شریف [2] یہ لوگ بیشک بہت مالدار تھے لیکن اس آمدنی سے فضول خرچی یا عیاشی نہیں کیا کرتے تھے ، جیسے آج کل سرمایہ دار کرتے ہیں ، قرون اولیٰ کے مال دار روپیہ نیک کاموں میں صرف کرتے تھے ۔