کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 27
ریاض الحسن نوریؔ ایم۔اے۔ لاہور اِشتراکی مغالطے اور اُنکا دفعیہ اغنیا صحابہ پر شرمناک بہتان قسط نمبر ۲ مسعود صاحب اپنے مضمون کی چوتھی قسط یوں شروع کرتے ہیں ۔ ’’یہ سمجھنا محض سادگی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے ملازم نے محض ذاتی عناد کی بنا پر شہید کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ ثانی مال داروں کی سازش کے نتیجے میں شہید ہوئے۔ اور وہ اس لئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سماجی معاہدے کے تحت مال داروں کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں ان پر سختی کی روش کے قائل تھے۔‘‘ اولاً ان صاحب کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قاتل خود ان کا ملازم نہیں تھا، جیسا کہ صاحب مضمون نے کہا ہے، بلکہ قاتل مغیرۃ رضی اللہ عنہ بن شعبہ کا غلام تھا۔ اگر مسعود صاحب براہِ راست عربی مآخذ سمجھنے سے قاصر ہیں تو کم از کم اردو میں لکھی گئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت ’’الفاروق‘‘ ہی دیکھ لیتے، اسی سے انہیں قاتل کا صحیح علم ہو جاتا، ہم شہادتِ عمر رضی اللہ عنہ کا وہ واقعہ شبلی رحمہ اللہ کی ’’الفاروق‘‘ سے نقل کرتے ہیں ۔ شہادتِ عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ: ’’مدینہ منورہ میں فیروز نام کا ایک پارسی غلام تھا۔ جس کی کنیت ابو لؤلؤ تھی۔ اس نے ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آکر شکایت کی کہ میرے آقا مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ نے مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کیا ہے۔ آپ کم کرا دیجئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تعداد پوچھی اس نے کہا روزانہ دو درہم (سات آنے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو کون سا پیشہ کرتا ہے؟ بولا: نجاری، نقاشی اور آہنگری، فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلے میں یہ رقم بہت نہیں ہے، فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا گیا۔