کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 25
ہاں منگیتروں کا ایک دوسرے کو بغیر کسی مقامِ تہمت یا تخلیہ وغیرہ کے دیکھ لینا، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ نہایت ضروری ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے از خود اس کا حکم فرمایا ہے، ان کا یہ کہنا کہ خوشگوار شادی کی بنیاد محبت ہے۔ یہ قابل تنقید ہے کیونکہ محبت کی کئی قسمیں ہیں ۔ جنسی تعلقات کی محبت، کھانے پینے کی محبت اور گھوڑ سواری کی محبت وغیرہ اور یہ محبت درحقیقت دل کا درد اور اس کا روگ ہے۔ جب تک اس کی تسکین نہ ہو بڑھتا رہتا ہے اور تسکین کی شکل یہی ہے کہ مطلوب سے اس کی غرض حاصل ہو جائے۔ جب مقصد حل ہو جاتا ہے تو یہ جوش ختم ہو جاتا ہے اور رغبت کمزور ہوجاتی ہے۔ اب اس کی وہ آنکھ نہیں رہتی۔ جس سے وہ اسے پہلے دیکھا کرتا تھا۔ یہی رغبت کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہو جاتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ بہت سے لوگ عورتوں کے عشق میں گرفتار تھے۔ انہوں نے ان سے شادی کی خاطر سب کچھ لٹا دیا لیکن جب ان کی خواہش پوری ہو گئی تو وہ ان سے بیزار ہو گئے۔ ان کے نزدیک ان کی قیمت ایک کوڑی بھی نہ رہی۔ وجہ یہ ہے کہ انکی محبت قلبی نہ تھی بلکہ محض جذباتی اور جنسی تھی۔ جس کی تسکین پر محبت بھی جاتی رہی۔ کسی یورپی شخص سے سوال ہوا تھا کہ تجھے کونسی عورت پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں اپنی بیوی کے سوا ہر عورت کو پسند کرتا ہوں ۔ اگر ایسی محبت بالکل ختم نہ بھی ہو تب بھی اس کا وہ جوش اور ولولہ ختم ہو جاتا ہے جو دیرپا رفاقت کے لئے ضروری ہے اور اگر اتفاق سے محبوب سنگ دل طبیعت کا، سخت اور بدمزاج ہو تو محبت کی جگہ بغض اور عداوت لے لیتے ہیں ۔ محبت کی جملہ اقسام سے ایک قسم میلان زوجیت کی محبت ہے یہ محبت پہلی قسم محبت سے دیرپا ہوتی ہے۔ اگر اتفاق سے دونوں کی طبیعتیں مل جائیں تو ایام گزرنے پر یہ محبت پروان چڑھتی ہے۔ہمارا مقصد نہیں کہ حسن و جمال حقیقی محبت کا سبب نہیں ہوتا اور نہ ہم عورت کی ظاہری شکل و شباہت سے قطع نظر صرف اس کی روحانی اور اخلاقی خوبیوں پر اکتفا کرتے ہیں ۔ کیونکہ یہ ایک فاش غلطی ہے۔ بلکہ حقیقی محبت اس وقت تک کامل نہیں ہوتی، بلکہ حقیقی محبت اس تک کامل نہیں ہوتی جب تک کہ محبوب و مطلوب دوسری خوبیوں کے علاوہ خوبصورتی کے ساتھ مزین نہ ہو۔ اور ایسی محبت اس شرعی