کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 23
مل جائے۔ اگر کسی نے دعوت دی بھی تو عین ممکن ہے کہ اس کا مذہب جدا ہو یا صرف دھوکہ دے رہا ہو۔ اور اگر کوئی شخص ہر لحاظ سے مناسب ہو تو اسے قبل از نکاح کچھ عرصہ اس سے وقتاً فوقتاً ملاقاتیں کرنا ہونگی، پسند آجائے تو پھر سالہا سال منگنی میں ہی گزر جاتے ہیں ۔ اس دوران خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں فریق ثانی وعدہ خلافی کر کے منگنی نہ توڑ ڈالے۔ میں بون یونیورسٹی کے شعبہ علوم مشرق کی ایک سیکرٹری عورت کا جانتا ہوں ۔ جس کا دِل ہمیشہ غم زدہ رہتا۔ اس کا واقعہ یوں تھا کہ کسی شخص نے اس سے وعدۂ نکاح کیا اس کے ساتھ چودہ برس ملاقاتیں کرتا رہا۔ جن کا مقصد نان نفقہ اور زندگی کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کی بجائے صرف جنسی تسکین تھا۔ کیونکہ ذمہ داریوں کا سوال صرف نام کے خاوند بیوی بننے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے وہ صرف منگیتر کہلاتے ہیں ۔ چودہ برس کے بعد اس کی متاع عزیز لٹ گئی اور حسن و شباب ڈھل گیا تو اس نے اسے چھوڑ کر کسی اور عورت سے شادی کر لی جو اس سے زیادہ مالدار تھی اور یہ حسرت کے آنسو ہاتی رہ گئی۔ ہزار ہا مثالوں میں سے یہ ایک مثال ہے۔ ایسے منگیتروں کی زندگی کا سب سے زیادہ تعجب خیز پہلو یہ ہے کہ مدت دراز تک دو محبوبوں کی طرح جنسی تعلقات سے محظوظ دو انسان جب نام کی شادی کر لیتے ہیں تو فوراً ہی ناچاقی ہو جاتی ہے، جس کا نتیجہ بالآخر طلاق ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ حیرت انگیز مثال جرمنی کے شہر ’’بون‘‘ میں پیش آئی کہ بیس برس تک نہایت اتفاق اور ہر لحاظ سے مطمئن زندگی کاٹنے کے بعد جب نکاح کر لیا تو ایک برس ہی گزرا تھا، اگرچہ وہ بھی سارا لڑائی جھگڑے میں گزرا، کہ طلاق ہو گئی۔ میں نے راز پوچھا تو معلوم ہوا کہ منگیتر شادی سے پہلے اپنے اصلی عادات و اطوار کو مصنوعی اور بناوٹی چاپلوسیوں کے پردہ میں چھپا رکھتے ہیں کہ کہیں وہ بیزار ہو کر منگنی نہ چھوڑ دے لیکن نکاح ہوتے ہی یہ تکلفات یکسر ختم ہو جاتے ہیں اور انسان اپنے حقیقی روپ میں