کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 22
البتہ اقوام یورپ میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم کا عورتوں سے ناروا سلوک، ان سے بے رحمی برتنا ان کی انتہائی حرص کا شاخصانہ ہے جس کا ذِکر دوسروں کے لئے درسِ عبرت ہونا چاہئے کیونکہ ان کے ہاں رواج ہے کہ جب تک کوئی لڑکی کم از کم ۵۰۰۰ مارک حق مہر نہ ادا کرے شادی نہیں کر سکتی۔ ہاں اس سے زائد خرچ کرنا چاہے تو اس کی کوئی قید و بند نہیں کیونکہ جس کی قسمت ساتھ دے اسے اپنے خرچ کے مطابق مناسب خاوند ملے گا۔ کیونکہ خاوند کسی عورت کے حسن و جمال، اس کی طبعی شرافت اور حسب و نسب سے متأثر ہو کر شادی نہیں کرتا بلکہ اس کے ہاں سب سے زیادہ اہمیت اس کے مال و متاع کو ہے۔ یہ عورت مال جمع کرنے کی غرض سے اپنی جوانی کا ایک بہت بڑا حصہ ملازمت میں گزار دیتی ہے، کیونکہ صرف اسی صورت میں اِسے شادی کی اُمید ہو سکتی ہے۔ برلن میں نوکرانی تیس مارک میں دستیاب ہوتی ہے۔ جبکہ چھوٹے شہروں میں کھانے سمیت بیس مارک میں مل جاتی ہے وہ حق مہر جوڑنے کی فکر میں اپنے آپ پر ہر نعمت حرام کر لیتی ہے۔ بعض اوقات اس کی تنخواہ پر ایک بوڑھی اور کمزور ماں کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔ اس بھی چند ایک مارک بطور امداد دینا پڑتے ہیں ۔ تو آپ اندازہ لائیں کہ وہ کتنے سال ملازمت کرے تاآنکہ اس کے پاس ہزاروں مارک اکٹھے ہو جائیں ۔ جن کے بعد وہ اپنے جیسے کسی مفلوک الحال مرد سے شادی کی سوچ سکے، پھر بات اِسی پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اسے تلاشِ خاوند کے لئے ناچ گھر اور سینما ہال وغیرہ کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اگر کسی مرد سے بات چیت کا موقعہ مل جائے تو اِسے غنیمت سمجھتی ہے۔ رواج یہ ہے کہ مرد ہی عورت کو رقص کی دعوت دیتا ہے۔ کسی مرد کی تلاش میں چند پیسے جن کی اسے اشد ضرورت ہوتی ہے خرچ کر کے کسی اجتماعی جگہ مثلاً سینما ہال، قہوہ خانہ، ہوٹل یا ناچ گھر میں چلی جاتی ہے اگر کوئی نہ ملے تو نامراد واپس لوٹ کر اگلی فرصت کا انتظار کرنے لگتی ہے۔ کیونکہ اس کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ روزانہ چکر کاٹتی پھرے بلکہ اس کی بہترین حالت یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک روز اِسے اتنی فراغت