کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 21
بچوں کی چیخیں بلند ہونے لگتیں ۔ وہ ہمیشہ اپنے پاس آگ بجھانے کے لئے پانی کی ایک بہت بڑی بالٹی رکھتی۔ وہ خطرے کا الارم سنتے ہی تینوں بچوں کو جگا دیتی، کپڑے پہناتی، کچھ کھانے پینے کو دے دیتی، کیونکہ بعض اوقات حملے کی مدت چھ گھنٹے یا اس سے بھی زائد وقت تک ہوتی اور ان دنوں یعنی عالمی جنگ کی ابتدائ سے ۱۹۴۲ تک فضائی حملے صرف رات کو ہوتے۔
اس واقعہ کے ضمن میں یہ ذکر بھی مناسب ہوگا کہ پہلی عالمی جنگ کی ابتدا میں فضائی حملے دو قسم کے ہوتے۔
1)روسی حملے: چونکہ روس قریب تھا۔ اس لئے ان کی علامت یہ تھی کہ غروب آفتاب کے آدھ گھنٹہ بعد شروع ہو جاتے۔ جرمن ان حملوں سے بالکل نہ گھبراتے اور اکثر لوگ پناہ گاہیں بھی تلاش نہ کرتے۔
2)انگریزی حملے: ان حملوں سے بہت جلد تباہی پھیل جاتی اور جرمن ان سے بچاؤ کی ہر ممکن تدبیر کرتے تو جب میں ماں بچوں کی چیخیں سنتا اور چونکہ میرے علاوہ کوئی اور مرد ان کے پڑوس میں رہائش پذیر نہ تھا۔ اس لئے میں ہی ان کی مدد کو دوڑتا۔ ایک بچہ میں اُٹھا لیتا اور سیڑھیوں سے اترنے لگتا اور بسا اوقات تواترنے کی بھی مہلت نہ ملتی کہ فضائی حملوں کی گرج اور ان کے جواب میں داغی جانے والی توپوں کی گڑگڑاہٹ اور ان سے کوندتی ہوئی بجلیاں ہمارے چھت سے اترنے سے پہلے ہی شروع ہو جاتیں تو یہ مسکین سیڑھی کے پائیدان سے کمین گاہ کے دروازے تک کا فاصلہ کہ وہاں سے انہیں کھلے آسمان تلے چلنا پڑتا طے کرنے کی بجائے کھڑے کھڑے کانپتے رہتے۔ چنانچہ میں ان کا حوصلہ بڑھاتا۔ جب انہیں لے کر کمین گاہ کی چوتھی سیڑھی پر پہنچتا۔ واپس آجاتا اور خود اس میں پناہ گزیں نہ ہوتا۔ کیونکہ میرا کمین گاہ کے چوکیداروں سے ایک دفعہ جھگڑا ہو گیا تھا۔
اور ہوا یہ۔۔ کہ جب میں جرمنی سے چلا گیا تو اس گھر پر گولہ باری ہوئی جس سے وہ کمرہ بھی بمعہ سازوسامان جل گیا، جس میں میں سویا کرتا تھا۔
اگر ہم اِن واقعات کا شمار کریں جن سے ثابت ہو کہ عورت مرد کی محتاج اور اس کی حمایت کی ضرورت مند رہتی ہے تو بات طویل ہو جائے گی۔