کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 20
تو اللہ نے ہر ذی روح مادہ کو خواہ بے زباں ہو یا ناطق اسے طبعی طور پر نر کا محتاج بنایا ہے۔ نیز اس کی طبیعت میں رب العزت نے مصنوعی نزاکت اور ناز و نخرہ بھی کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے۔ عورت خواہ انتہائی ترقی پذیر ملک اور تہذیب میں کیوں نہ پروان چڑھی ہو، کسی صورت میں بھی وہ مرد کی حمایت سے مستفنی نہیں رہ سکتی۔ مجھے ’’بون ‘‘[1] شہر میں ’’فرادزی‘‘ نامی ایک عورت نے بنایا کہ وہ خاوند کی زندگی میں اس کی ایک معشوقہ کی وجہ سے خون کے گھونٹ پیتی رہتی۔ لیکن جب اس کی موت کی وجہ سے سارے کام ادھورے رہ گئے تو وہ اس کے فراق پر آنسو بہانے لگی۔ اگر وہ کسی فرم کو کوئی آرڈر بھیجتی ہے تو اپنے نام کا آخری حصہ جو اس کی نسوایت کا غماز ہے حذف کر دیتی ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ مکتوب الیہ کو اس کی اس کمزوری کا علم ہو تو وہ آرڈر بک کرنے میں غفلت اور سستی سے کام لے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ بعض اوقات اس کے دروازے پر خلافِ قانون کچھ مسکین صدقہ و خیرات مانگتے ہیں تو وہ بھکاری پر رحم کھا کر دروازے کی درز سے پیسے پھینکتی ہے تاکہ نہ وہ خالی جائے اور نہ ہی کوئی چور بھکاری کے بھیس میں اس کے گھر میں آگھسے۔ برلن[2] ہمارے پڑوس میں ایک عورت رہائش پذیر تھی۔ جس کے چھوٹے چوٹے تین بچے تھے۔ پہلی عالمگیر جنگ میں فضائی حملوں کی خبر دینے میں جب خطرے کی گھنٹی بجتی تو اس کے ساتھ ہی عورت اور اس کے
[1] مغربی جرمنی کا صدر مقام ہے۔ [2] جرمنی کے مشرقی اور مغربی حصوں کی سرحد پر واقع ہے۔ جس کے مغرب میں سرمایہ دارانہ نظام اور مشرق میں سوشلزم حکومت کر رہا ہے درمیان میں دیوار برلن ہے جس پر برقی رو چل رہی ہے۔ سوشلزم سے تنگ آکر لاکھوں انسان ہر سال دیوار پھاند کر مغربی جرمنی میں جانے کی کوشش میں برقی رو اور دونوں ملکوں کے پہرے کی پرواہ نہ کرت ہوئے موت کے منہ میں آتے رہتے ہیں، ۲۱ مترجم۔