کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 19
وہ ان کی تصاویر دیکھ کر کہ یہ لڑکیاں اپنی شکل و صورت، ادبی معیار اور خاندانی شرافت کے باوجود اسے چاہتی ہیں تو وہ (بازی لینے کی فکر میں ) اس کے عشق اور فتنۂ محبت میں بڑھ جاتی ہے۔ جب اس کا داؤ ہر لحاظ سے مکمل اور اس کی عقل اس کے عشق میں اندھے ہونے کی وجہ سے کام نہیں کرتی تو وہ اچانک کوئی بہانہ تراشتا ہے کہ ایک بھاری مقدار کا چیک جو اس نے اپنے ماں باپ سے طلب کیا تھا، فلاں وجہ سے اس کی وصولی میں دیر ہوگئی، حالانکہ یہ وجہ بالکل بے بنیاد ہوتی ہے۔ لڑکی ناتجربہ کاری کی وجہ سے دھوکہ میں آکر اس کی مرضی کے مطابق قرضہ لا دیتی ہے۔ جسے حاصل کرنے کے بعد وہ فوری سفر کا بہانہ بنا کر اور فوری واپس کا وعدہ کر کے ہمیشہ کے لئے چھوڑ جاتا ہے۔ بعض اوقات وہ حاملہ رہ جاتی ہے، لیکن یہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کیونکہ نکاح ہونے سے پہلے وہ ایسی ادویات استعمال کرنے میں خاصی احتیاط اور باقاعدگی اختیار کرتے ہیں جن سے حمل نہیں ہوتا۔ کیا آزادیٔ نسواں کے دعویدار یہ جانتے ہیں کہ اہل یورپ میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک سے متعلقہ عورت بھی مرد کی حمایت، نگرانی اور اس کی سرپرستی کی دست نگر رہتی ہے۔ اس کی اس ضرورت کو مال، علم، شرافت، حسب و نسب اور کسی قسم کا جاہ و جلال پرا نہیں کرتے۔ اِس ضمن میں برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کا قصہ مشہور ہے کہ وہ ایک روز خاوند کے کمرے پر آئی، دروازہ پر دستک دی۔ اندر سے آواز آئی: ’’کون ہے؟‘‘ کہنے لگی: ’’میں ملکہ ہوں ۔‘‘ جواب ملا: ’’مجھے ملکہ کی ضرورت نہیں ۔‘‘ اسے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا، تلافی کرتے ہوئے کہنے لگی۔ ’’دروازہ کھولئے! میں آپ کی پیاری وکٹوریہ ہوں ۔‘‘ ’’ہاں اب کھولتا ہوں ۔‘‘ اس نے جواب دیا۔