کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 17
لیکن ہم نے تمہاری طبیعتوں کو اچھا اور تمہاری نیتوں کو فاسد پایا۔ تم فریب کاری اور دھوکہ دہی سے کام لے کر سادہ لوح دوشیزاؤں کی آبرو لوٹتے اور دنیا کے پرخطر مراحل کو سبز باغوں کے چکموں میں تبدیل کر کے ہر حیلے اور بہانے سے ان کا شکار کرتے ہو، تم انہیں زندگی کے ہر موڑ میں ایسی دشواریوں سے ہم کنار کرنا چاہتے ہو جو کسی دشمن کے ذہن میں بھی نہیں آتیں ۔ اس لئے ہمارا یہ کہنا ہے کہ حجاب کی ناجائز، سختیاں تمہاری اس تحریک کے درپردہ برآمد ہونے والے خطرناک نتائج کی نسبت بہت ہلکی ہیں ۔ پھر تمہارا یہ کہنا کہ یہ فریب کاریاں اور حیلہ تراشیاں ، جن کا نتیجہ شریف خاندانوں کی بربادی ہوا ہے، تم نے اہلِ یورپ کی اقتدأ میں اختیار کیں یہ بھی نہایت تعجب خیز ہے، چنانچہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یورپ کے ترقی پذیر اس بے راہ روی کے موجد نہیں بلکہ یہ چیز انہیں اپنے (جاہل اور غیر شائستہ) اسلاف سے ورثہ میں ملی ہے، البتہ انہوں نے اس حالت کو تبدیل کرنے کی کوشش ضرور کی ہے، چنانچہ رپورٹ ملاحظہ ہو۔ ’’یہ چیز یقینی ہے کہ وہ ممالک جن میں اسلامی آداب و اخلاق ابھی باقی ہیں ان میں شادی کے نتائج شاندار [1]رہتے ہیں ۔ وہاں شادی شدہ عورتوں کی تعداد ۹۵ فیصد ہے اور یہ سب کچھ حجاب کی پابندیوں کے باوجود صرف اسلامی ہدایات کا کرشمہ ہے۔‘‘ کیا آپ جانتے ہیں کہ جب ہٹلر نے یہ دیکھا کہ جرمن میں شادی شدہ جوڑے چالیس فیصد سے زائد نہیں تو قانون پاس ہوا کہ جو شادی کرے ا سے پانچ ہزار مارک قرضہ یعنی اس زمانہ کے چار سو دنار دیئے جائیں گے۔ جس کی ایک قسط ایک بچہ پیدا ہونے پر معاف اور پانچ بچوں کا باپ بننے پر مکمل قرضہ معاف ہو جائے گا۔
[1] مقصد یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی بدولت خاوند بیوی نکاح سے پہلے بوجہ پردہ ایک دوسرے کی عادات و خصائل سے ناواقف ہونے کے باوجود کامیاب اور خوشخال زندگی بسر کرتے ہیں۔ طلاق کی نوبت کبھی کبھار آتی ہے، بخلاف اہل یورپ کے کہ وہ قبل از نکاح مدت تک ایک دوسرے کے ساتھ ہر طرح وابستہ رہنے کے باوجود جب صرف نام کے خاوند بیوی بنتے ہیں تو فوراً ناچاقیاں اور طلاقیں ہو جاتی ہیں اور یہ طلاقیں آئے دن ہوتی رہتی ہیں۔ ۱۲ مترجم