کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 16
بھگتنا پڑتا ہے اور اس کا مال ضائع جاتا ہے۔
اگر اصحاب فہم و فراست اور نیک لوگ ایک تحریک کی شکل میں اس رواج کو ختم کرنے پر تل جائیں اور عورت کو وہی مقام دیں جو اسے دورِ نبوت میں نصیب تھا جس کا مظہر بعض دیہاتوں میں آج تک موجود ہے اور اس کے ساتھ نظر کی حفاظت کی تلقین بھی کریں تو ان کا تعاون نہایت ضروری ہو گا۔ لیکن وہ لوگ جو آزادیٔ نسواں کے داعی اور اس کے حقوق کے (نام نہاد) نگرا ہیں ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کی امت مسلمہ کے ِل میں کوئی عزت ہے اور نہ ہی اِن پر کوئی اعتماد ۔۔، کیونکہ ان کے پاس اخلاق ہے نہ غیرت، انہیں آبرو کا پاس ہے نہ عزت و ناموس کا کچھ لحاظ، عوام ان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اس تحریک کے در پردہ ایسے ارادے رکھتے ہیں جو بھیڑ بکریوں کے گلے میں بھیڑیے کے ہوتے ہیں ۔
اور یہ چیز بھی ان لوگوں کو معلوم ہے کہ مستورات کو حجاب کی ناجائز پابندیوں سے اگرچہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن منہ کھلا چھوڑ کر، حسن و جمال کی نمائش کرتے ہوئے آبرو کی قدر و قیمت ختم کر دینے میں جن مصائب سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ ان کا کوئی کنارہ نہیں ، عورت کی طرف سے ایسے اقدامات نہایت خطرناک اور دوزخ میں لے گرنے والوے کناروں پر استوار ہیں ۔ عورت کی اِس مصیبت کا حل نہ تو کوئی ڈاکٹر کر سکا اور نہ ہی کوئی تعویز گنڈے کرنے والا، بلکہ لوگ اس کے معاملے میں دو گروہ بن گئے ایک افراط کی راہ پر چل نکلا اور دوسرا تفریط میں گم ہو گیا۔
آزادیٔ نسواں کے دعویدارو! خدا گواہ ہے اگر ہمیں یہ یقین ہوتا کہ تم واقعی عورتوں کی ناگفتہ بہ حالت کی اصلاح میں فہم و فراست اور عقل و خرد کے مضبوط اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نیکی اور سعادت کو نصب العین بناؤ گے۔ اور یہ کوشش کرو گے کہ وہ مامتا کے زریں اصول میں کمال حاصل کرتے ہوئے نیک اولاد جنیں گی اور ان کی گھریلو زندگی خوشگوار وار سعادت سے لبریز ہو گی تو ہم تمہاری امداد و نصرت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتے۔