کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 15
ان کی آواز تک کو موجب شرم قرار دیا، ان کا محرموں اور خاوندوں کی موجودگی میں بھی مردوں سے خواہ وہ کتنے صالح ہوں بات تک کرنے کو بے حیائی پر محمول کیا۔ پھر معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ اسے لکھنے پڑھنے سے بھی محروم رکھا جس سے اس اِن کی وراثت، خرید و فروخت، شہادت اور وکالت کے حقوق اور دیگر ہر قسم کے تصریفات اور اختیارات ضائع ہو گئے جو انہیں اسلامی شریعت نے عنایت فرمائے تھے۔ ایسی عورتوں کی حالت زار زندوں کی بجائے مردوں سے زیادہ ملتی جلتی ہے، بلکہ معاملہ اس سے بھی تجاوز کر چکا ہے کہ کنواری لڑکیاں اور دوشیزائیں حجاب کی ناجائز سختیوں کے اندھیروں میں ایسی گم ہوئیں کہ انہیں ا نکے والدین اور بھائی بہنوں کے علاوہ دوسری کوئی عورت بھی نہیں دیکھ پاتی، اس طرح اس سنت مطہرہ پر عمل جاتا رہا ہے۔ جس میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ۔ اِذَا اَرَادَ اَحَدُکُمْ اَنْ تَّیَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَلْیَنْظُرْ اِلَیْھَا فَاِنَّہ اَحْرٰی اَنْ یُؤْدَمَ بَیْنَھُمَا ’’جب کسی عورت سے نکاح مطلوب ہو تو اس قبل از نکاح دیکھ لے کیونکہ اس سے محبت بڑھنے کی زیادہ توقع ہے۔‘‘ یعنی اگر وہ تخلیہ کی ملاقات اور مقامِ تہمت سے گریزاں ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھ لیں تو اس سے اتفاق پیدا ہونے کی زیادہ توقع ہے۔ اِن غیر شرعی تکلفات کے نتیجہ میں جو جرائم منظرِ عام پر آتے ہیں ، وہ نہایت کثیر التعداد اور آئے دِن پیش آنے والے ہیں ، چنانچہ نکاح شادی کے موقعوں پر فریب کاری اور دھوکہ دہی کی کافی مثالیں سامنے آتی ہیں ، مثلاً کسی شخص کی دو بیٹیاں ہوں جن میں سے ایک خوبصورت جس کا نام لیلیٰ اور دوسری بدصورت جسے وعد ہوتے ہوں اگر کوئی خوبصورت سے نکاح کا پیغام دے کر بھیجتا ہے۔ تو چونکہ نہ وہ انہیں پہچانتا ہے اور نہ ہی بڑھیا عورت انہیں جانتی ہے، جو اس کی طرف سے پیغام لے کر جاتی ہے تو اہلِ خانہ مغالطہ دے کر کہ خوبصورت وعد ہے، بدصورت سے نکاح کر دیتے ہیں ، جس کا خمیازہ اِسے