کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 13
ایک جرأت ہے۔ کیونکہ کوئی وفات خوشی کی مصداق تب ہی ہو سکتی ہے، جب کہ پورا یقین ہو جائے کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہے۔ لیکن یہ بات ان لوگوں کے سوا جن کی مغفرت کی شہادت یا جن کو جنت کی بشارت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ کسی اور شخص کو حاصل نہیں خواہ وہ شخص کتنا ہی بڑا عابد، زاہد، صالح، عالم، عامل، متقی اور ولی کیوں نہ ہو، اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے، اور کتب دین سے بھی یہی واضح ہوتا ہے، ہاں جس شخص کو ہم متقی، صالح اور عابد و زاہد دیکھتے ہیں ۔ اس کے حق میں ہمیں حسن ظن رکھنا چاہئے۔ لیکن یہ گمان اِس امر کا مقتضیٰ نہیں کہ ہم ان کی وفات کے دِن کو خوشی کا دِن قرار دے کر (قبر پر گھر میں ) ایسی ایسی رسوم ادا کریں جن کا حکم ہمیں شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نہیں ملتا۔ یہ رسوم عرس ان بدعات میں شامل ہیں ، جن کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جو اسلام میں ایسے امور شروع کرے جو اس میں نہیں ہیں ۔ تو وہ اس قابل ہیں کہ انہیں رد کر دیا جائے‘‘ اور دوسری حدیث میں ہے کہ ’’جو شخص ہمارے حکم کے علاوہ کوئی نیا کام کرے وہ رد کر دینے کے قابل ہے‘‘ اور ایک تیسری حدیث میں بھی ایسے ہی الفاظ ملتے ہیں ۔[1]اور حدیث کے یہ الفاظ ہر نئے پیدا شدہ امر پر حاوی ہیں ۔ کوئی ادنےٰ اور اعلےٰ بدعت اس دائرے سے خارج نہیں ، یہ حدیث جس طرح بدعت کی بیخ و بن اکھاڑتی ہے اِس کی وضاحت ’’نیل الاوطار‘‘ میں بڑے اچھے انداز سے کی گئی ہے، اور ’’دلیل الطالب‘‘ میں بھی نقل ہے۔
[1] عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ رَوَاہُ الشَّیْخَان وَاَبُوْ دَاؤد و لَفْظُہ مَنْ صَنَعَ اَمْرًا عَلٰی غَیْرِ اَمْرِنَا فَھُوَ رَدُّ وَبٰنُ مَاجَۃَ وَفِی رَوَایَۃٍ لِمُسْلِمٍ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا، لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَھُوَ رَدُّ،