کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 12
ماہِ ربیع الآخر علامہ نواب سید محمد صلی اللہ علیہ وسلم صدیق حسن خان قنوجی رحمہ اللہ اِس مہینے کی فضیلت کے متعلق حدیث کی کسی کتاب میں کوئی کتاب میں کوئی ذِکر نہیں ملتا۔ شیخ عبد الحق دہلوی نے اپنی کتاب ’’ما ثبت بالسنہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اس ماہ میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی وفات ہوئی تھی، اور ان کا عرس ۹ تاریخ کو ہوتا ہے اور مشہور گیارہویں تاریخ ہے‘‘ یہ لکھنے کے بعد انہوں نے عرس کے استحسان کا ذِکر کیا ہے۔ لیکن مسلمان عالم یا صوفی کے کسی مہینہ میں فوت ہونے سے اس مہینے کی فضیلت ثابت نہیں ہو سکتی۔ اگر یہ بات ہوتی تو جن مہینوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے خلفائے راشدین اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی وفات ہوئی۔ جن مہینوں میں ائمہ اہل بیت اور دوسرے صالحین اور اولیا اللہ فوت ہوئے ان سب مہینوں کو افضل ہونا چاہئے حالانکہ اس امر کے متعلق کسی آیت، حدیث یا کسی امام مجتہد کے قول سے معمولی سا بھی ثبوت نہیں ملتا۔ عرسوں کا بھی یہی حال ہے کہ ان کے متعلق بھی کسی قسم کے کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں ملتی، ہاں اگر مشائخ میں سے کسی کی طرف ایسا قول منسوب کیا جاتا ہے تو وہ حجت نہیں ہو سکتا دیگر غیر شرعی رسوم کی طرح عرس بھی ایک رسم ہے اور یہ رسم ایک ایسی بدعت ہے، جس کی قیامت کے روز باز پرس ہو گی، شاہ ولی اللہ محدث رحمہ اللہ دہلوی اپنے وصیت نامہ میں تحریر فرماتے ہیں :۔ ’’نسبت صوفیہ غنیمت کبری است در سوم ایشاں ہیچ نمے ارزو‘‘ ایسی رسوم کی کوئی اہمیت نہیں ۔ عرس کی بدعت سے عوام الناس کی ایک کثیر تعداد پیر پرست اور قبر پرست ہو گئی ہے۔ اور لوگ عرس منانے کے لئے دور دراز کی منزلیں طے کر کے پہنچنے لگے ہیں ، حالانکہ صرف زیارت قبر کے لئے بھی سفر کرنا شرعاً ثابت نہیں اور اس سفر میں توقیر کی زیارت کے علاوہ رسوم عرس بھی پیشِ نظر ہوتی ہیں ۔ تاریخ وفات کو عرس (خوشی اور شادی) کا دن قرار دینا، خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر