کتاب: محدث شمارہ 6 - صفحہ 10
کی۔ راستہ بھر گاڑی لیٹ ہتی رہی۔ یہ ہے ہمارے طلبا کا کریکٹر؟ یہ ہیں ہمارے ملک کے علمی اداروں میں تربیت حاصل کرنے والے وہ طلبا جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ دوڑ آنے والی ہے۔ ان سطور کو پڑھتے وقت یہ بھی ذہن میں رہے کہ ابھی ملک میں شدید قسم کا مارشل لا نافذ ہے۔ اور ملک میں ملٹری گشتی عدالتوں کی معدات گستری کے ہاتھوں سینکڑوں غنڈوں پر کوڑے برس رہے ہیں ۔ شرم و حیا سے لباس کا تعلق: اخلاق اور شرم و حیا کے ساتھ لباس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر لباس حیا دار نہیں تو صاحب لباس حیا دار کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمارے کالجوں میں مخلوط تعلیم کے تدریجی اور ارتقائی منازل کے نتیجے میں طلبا اور طالبات نے جو لباس اپنایا ہے۔ افسوس کہ وہ انتہائی شرمناک اور بے حیائی کا مظہر ہے، کوئی شریف آدمی اسے گوارا تو کیا دیکھنے کی بھی تاب و مجال نہیں رکھتا۔ اس کے غیر شریفانہ ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گورنر پنجاب کو حکماً اس لباس کو ممنوع قرار دینا پڑا۔ ہمارے ہوسٹل: ہمارے کالجوں کے ہوسٹلوں میں کیا ہوتا ہے؟ میں ان کا مکمل نقشہ کھینچنے کی تاب نہیں رکھتا۔ گویا اِس اجتماعی نفسیات پر مکمل شیطان کا تسلط ہوتا ہے۔ گانا بجانا، ہزلیات، فلمی ریکارڈنگ، عشقبازی کے ذاتی تجربات اور رنگ و بو کی دنیا کی آپ بیتیاں ، سینما اور ایکٹرسوں کے واقعات اور تبصرے ایک دوسرے کے مال میں چوری اور سینہ زوری مطبخ میں کمی بیشی۔ کوئی بزرگ آجائے تو شرمناک مذاق، حالانکہ یہی ہوسٹل ہماری تربیت کے سنٹر ہونے چاہئیں چنانچہ ایسا ہی ہوتا تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی تعلیمی اوقات سے زیادہ ان اقامتی اداروں کی اخلاقی تربیت پر ناز تھا۔ ان ہوسٹلوں میں شراب تک کے دَور چلتے تھے۔ اختلاط باہمی کے سارے فتن و شرور کے دروازے کھلتے ہیں جو ایک مسلمان تو کجا ایک عام انسان کے نزدیک بھی انتہائی کرب ناک ہیں ۔