کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 9
کہ جو قوم اس طرح اپنے مرکز و محور کو پس پشت ڈال دے، پھر بزو دیا بدیر تاریخ امم ماضیہ کی روشنی میں اس کا انجام کیا ہونے والا ہے!!
اب دیکھنا یہ ہے کہ آخر ہماری اس حرمان نصیبی کا علاج کیا ہے؟
عملی نقطہ نگاہ سے تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ جو لوگ درد مندی س اس خسران بینی کا احساس رکھتے ہیں وہ اپنی جدوجہد کے لئے ایک منظم طریقے سے میدان عمل میں نکل آئیں اور ایسی راہ عمل متعین کریں جس سے ہمارے ارباب اختیار قرآنی تعلیم کو رائج کرنے پر مجبور ہو جائیں ۔
قوم نے اب تک اس بارہ میں عملی قدم کیا اُٹھایا ہے؟ زیادہ سے زیادہ کچھ مضامین، کچھ ریزولیوشن، کچھ مذاکرے، کچھ نوٹ اور کچھ مرثیے۔ لیکن جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نہ تو تبلیغ حق کی راہ میں پتھر کھائے نہ ہی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح عملی نفاذ کے لئے مصائب و شدائد برداشت کئے۔
تاریخ پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ جو قومیں یا افراد کسی بلند مقصود کے لئے اپنا خون پیش نہیں کر سکتے۔ ان کی کامیابی محال ہے۔ ؎
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
افسوس کہ ہم نے اب تک قرآنی تعلیم کے نفاذ کے لئے بحیثیت مجموعی نہ تو کوئی ہنگامہ خیز انقلابی قدم اٹھایا اور نہ ہی ارباب اختیار کو عمل کی دنیا میں آنے کے لئے اس طرح متاثر کیا کہ وہ قوم کی موجودہ حرمان نصیبی اور ملت کی محرومی کے لئے اپنے آپ کو مجرم گردانتے۔
سب سے پہلے یہ عاصی اپنے آپ کو اس غفلت شعاری کا مجرم گردانتا ہے اور اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہتا ہے ؎
سودا قمار عشق میں مجنوں سا کوہ کن کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشقباز
بازی اگر نہ پا سکا سر تو دے سکا اے روسیاہ! تجہہ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا۔
عبد الغفار اثرؔ