کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 8
کون سے رازی و غزالی پیدا ہوں گے۔ یہ تو ایک بے فائدہ ہے، لیکن چونکہ اسی قرآنی تعلیم کے پردے میں ان مشنری اداروں کی مالی امداد مطلوب تھی لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ ہر ایسے سکول میں محکمہ اپنی گرہ سے ایک ایک وسیع کمرہ تعمیر کرنے کے لئے خرچ برداشت کرے اور تعلیم کے لئے جو مولوی صاحب مقرر کئے جائیں گے ان کی تنخواہ بھی محکمہ تعلیم ہی اپنے فنڈ سے ادا کیا کرے گا، خیال فرمائیے کہ صرف چند منٹ کی تعلیم اور وہ بھی برائے نام اس کے لئے شایان شان ہر سکول میں کمرے تعمیر کرائے گئے جنہیں قرآن سے زیادہ عیسائیت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور ہزاروں روپے ماہوار مدرس کی تنخواہیں دی جاتی ہیں ، حالانکہ وہ مدرس اپنے آپ کو سکول کی عیسائی انتظامیہ کا ملازم تصور کرتا اور بیچارہ ایسا بھیگی بلی کی طرح وقت گزارتا ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان مصور ہے، میں نے ایسے اساتذہ کی افسوسناک حالت کو دیکھا ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ عیسائی اداروں کو ہی یہ مراعات کیوں دی گئی ہیں ؟ باقی پرائیویٹ اعلیٰ درجہ کے اسلامی سکولوں کو کیوں در خود اغنا نہ سمجھا گیا، ان عیسائی اداروں کو عمومی تعلیمی گرانٹ ہر سال الگ دی جاتی ہے اور قرآنی تعلیم کے نام پر لکھو کھا روپے الگ عطا فرمائے گئے۔
بریں عقل و دانش ببائد گریست
اسی سلسلہ میں واضح رہے کہ جونیئر کیمرج اور سینئر کیمرج اداروں کے نصاب میں قرآن حکیم کی ایک آیت بھی شامل نصاب نہیں ہے۔
یہ ہے مختصر روئیداد اس ’’کتاب ہدی۔‘‘ کی تعلیم کے متعلق اس مملکت خداداد پاکستان میں جس کے دعاوی کی ابتدا و انتہا قرآن ہے اور جس کی رعایا ’’حامل قرآن‘‘ کہلانے میں فخر محسوس کرتی ہے، جس کا ایمان یہ ہے کہ اس کتاب سے زیادہ اعلیٰ، سچی، اخلاقی اور فصیح و بلیغ عظیم آسمانی کتاب دنیا کی کسی دوسری قوم کے پاس نہیں ہے۔ اور یہ کہ اس کتاب پر ایمان لانا، اس کی ہدایات پر عملدر آمد کرنا اور اس کی تعلیماتِ عالیہ کی روشنی میں دین و دنیا کو استوار کرنا ہی ایک مسلمان کا مقصد حیات، منزل مقصود اور کعبۂ مطلوب ہے۔ آپ خود ہی اندازہ کر لیں کہ ہمار ارباب دانش اپنے قول و فعل میں کہاں تک مخلص ہیں اور یہ بھی پیش نظر رہے