کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 7
اور کہیں بھی کلام اللہ کا کوئی حصہ کسی صورت میں نصاب میں شامل نہیں ہے۔‘‘ (ملاحظہ ہوسیارہ ڈائجسٹ قرآن نمبر) یورپین ٹائپ سکول میں قرآن کی تدریس؟ ان کے علاوہ ہمارے ملک میں ایک اور انداز تعلیم کے سکول بھی بکثرت ہیں جنہیں عرف عام میں یورپین ٹائپ سکول کہا جاتا ہے۔ یہاں بچوں کو بالکل انگریز بنایا جاتا ہے۔ پہلی جماعت سے بچے انگریزی بول چال اور مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھالے جاتے ہیں ، لباس وضع قطع اور معاشرت غرضیکہ زندگی کے ہر موڑ پر یورپین تہذیب کا پیکر بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا اور فیس کی شرح پہلی جماعت کے لئے پندرہ روپے ماہوار تک لی جاتی ہے۔ اس میں بچے عموماً سی ایس پی اور اعلیٰ گریڈ کے افسروں کے ہوتے ہیں ، اور یہ ادارے اکثر عیسائی مشنریوں کے ما تحت ہیں ۔ صباحی خطاب باقاعدہ بائبل کی تلاوت اور یسوع مسیح کی تصویر کے روبرو ہاتھ باندھ کر دُعا (Cermon) سے شروع ہوتا ہے اور ان سکولوں کی نوے فیصد تعداد مسلمان طلبا پر مشتمل ہوتی ہے۔ گویا مسلمان قوم ہر ماہ لاکھوں روپے فیس کی صورت میں گرہ سے دینے کے علاوہ اپنے بچوں کی نقد متاع ایمان لٹا کر مستقبل میں عیسائیت کے لئے نرم چارہ بنا دیتے ہیں ۔ یہ سکول ہمارے معاشرہ میں بے حد مقبول اور معیاری سمجھے جاتے ہیں اور دن بدن ان کی مقبولیت اور تعداد بڑھ رہی ہے۔ ایسے سکولوں کی تعداد مغربی پاکستان میں ۵۷ ؁ میں ۲۸ تھی۔ ۱۹۶۱؁ میں یہی تعداد بڑھ کر ۸۲ ہو گئی۔ ۶۶؁ میں ۹۹ تک جا پہنچی اور ۷۱؁ میں ۱۵۰ کے قریب اندازہ کی گئی ہے، جن میں کم و بیش پچاس ہزار بچے زیر تعلیم ہیں ۔ ان سکولوں میں قرآنی تعلیم کی تدریس کا مسئلہ جب ہمارے محکمہ تعلیم کے زیر غور آیا۔ تو ایک عجیب لطیفہ ہوا۔ اور تعجب ہوتا ہے کہ خود محکمہ تعلیم کے ارباب حل و عقد بعض اوقات کیسے عقل و فرد سے عاری بلکہ مضحکہ خیز فیصلے کر جاتے ہیں ۔ اول تو ایسے سکولوں میں قرآنی تعلیم کا پیوند ہی غلط ہے۔ جہاں سارا ماحول کلیۃً غیر اسلامی ہو وہاں پچیس تیس منٹ کے لئے اگر قرآن کریم کی چند غلط سلط آیات کی تدریس ہو بھی گئی تو اس سے