کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 5
کی گئی ہے۔ (جبکہ مساجد اور مکاتیب میں یہ کام صرف سال دو سال میں مکمل ہو جاتا ہے) لیکن یہ سب کچھ محکمۂ تعلیم کے گشتی مراسلوں اور کاغذی سکیموں کی حد تک ہے، عملاً شایدہزار میں سے دو، چار سکولوں ہی میں مکمل ناظرہ خوانی کا انتظام ہو گا۔ اس لئے کہ نہ کہیں ناظرہ پڑھانے کے لئے تریت یافتہ حفاظ و قرا کا انتظام ہوا ہے اور نہ آئندہ تریت کے لئے کوئی انتظام کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی نازک کام دوسرے مضامین کی طرح تریت یافتہ اساتذہ کے بغیر ممکن نہیں (جس کی ساری ذمہ داری محکمۂ تعلیم پر ہے) (ب) حفظ قرآن: ابتدائی مدارس کی جماعت چہارم و پنجم میں صرف آخری دس مختصر صورتیں اور ہائی سکول کی جماعت ششم میں صرف ۹ آیات حفظ کرنا نصاب کا حصہ ہے، گو عملاً یہ بھی نہیں ہوتا۔ (ج) ترجمہ کلام اللہ: ابتدائی مدارس کی کسی جماعت میں کسی ایک آیت کا ترجمہ بھی شامل نہیں ۔ وسطانی (مڈل کلاس) میں آخری پارہ کی دس مختصر سورتوں کا اور سورۃ البقرہ کی صرف چار آیات کا ترجمہ نصاب میں داخل ہے۔ جماعت نہم، دہم میں اگر کوئی طالب علم اختیاری اسلامیات کا پرچہ لے تو ۲۲ آخری مختصر سورتوں کا ترجمہ پڑھ لیتا ہے۔ ورنہ پھر ۱۵ سورتوں کا ترجمہ رہ جاتا ہے۔ جس میں سے وہ دس کا ترجمہ پہلے ہی چھٹی، ساتویں جماعتوں میں پڑھ چکا ہے۔ (نصاب سازی میں منصوبہ بندی کی یہ کیفیت دانشوروں کے لئے خاص طور پر توجہ کے لائق ہے)۔ (د) تفصیر کلام اللہ: انٹر میڈیٹ میں اگر کوئی طالب علم اسلامیات کا مضمون اختیار کرے تو نصف سورہ بقرہ کی تفسیر پڑھ سکتا ہے۔ وہ بھی صرف آرٹس کا طالب علم (کیونکہ سائنس کے طلبا (حکماً) اسلامیات پڑھ ہی نہیں سکتے۔ نصف سورۂ بقرہ لاہور بورڈ میں ہے۔ پشاور بورڈ، حیدر آباد اور کراچی بورڈ میں صرف سات رکوع کی تفسیر شامل نصاب ہے۔ بی اے میں اگر کوئی طالب علم اسلامیات کا مضمون اختیار کرے تو پشاور یونیورسٹی میں سورۂ بنی اسرائیل اور آخری پارہ کا آخری ربع شامل نصاب ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں سورہ محمد، سورہ فتح