کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 45
جہانگیر کو گمان بھی نہ تھا کہ حضرت مجدد رحمہ اللہ حکم عدولی کریں گے۔ بادشاہت کا یہ دستور ہے کہ جو سر شہنشاہ کے سامنے جھکنا نہ جانے اسے قلم کر دیا جائے۔ جہانگیر کے غیظ و غضب کی آگ بھڑک اُٹھی، اس نے فی الفور حضرت مجدد رحمہ اللہ کے قتل کا حکم دے دیا، مگر حق گوئی و بے باکی کے اس عظیم پیکر اور عزم و ثبات کے اس ہمالے کی پیشانی پر خوف و ہراس کے کوئی آثار نظر نہ آئے، جہانگیر کا خیال تھا کہ اس انتہائی سزا کے خوف سے حضرت مجدد رحمہ اللہ فوراً گھٹنے ٹیک کر فوراً تعظیمی سجدہ بجا لائیں گے، مگر جب اس نے دیکھا کہ حضرت مجدد صاحب اس مرحلۂ عشق میں سولی پر لٹک جانے کے لئے بھی تیار ہیں تو اس نے کچھ سوچ کر فیصلہ بدل دیا اور حضرت امام کو گوالیار کے قید خانے میں بند کر دیا۔۔۔ حضرت مجدد رحمہ اللہ نے فرمایا:
ھَنِیْئاً لِّاَرْبَابِ النَّعِیْمِ نَعِیْمُھَا
وَ لِلْعَاشِقِ الْمِسْکِیْنِ مَا یَتَجرَّع
دولت مندوں کو ان کی دولت مبارک، لیکن مسکین عاجز کے لئے درد و الم کے گھونٹ مبارک ہوتے ہیں ۔
قارئین کرام! تاریخ شاہد ہے کہ آخر دو سال بعد جہانگیر نے حضرت مجدد رحمہ اللہ کو قید خانے سے نکال کر اُن کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کا اتنا گروید ہوا کہ آپ کو شاہی مہمان کی حیثیت سے اپنے پاس رکھا، تین، چار سال تک اسلامی احکام نافذ ہوتے رہے۔ آخر شہزادہ خرم (شاہجہاں ) کو بھی آپ کی بیعت کا حکم دیا۔
جہانگیر اپنے گناہوں پر بہت نادم تھا۔ حضرت مجدد رحمہ اللہ سے اپنی مغفرت کے لئے دُعا کی اور سفارش کی درخواست کی، حضرت مجدد رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’جب احمد سرہندی کو خدا جنت میں لے جائے گا تو وہ جہانگیر کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار (علامہ اقبال)