کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 44
جہانگیر غصہ سے تلملا اُٹھا اور کہا:
’’تم درباری آداب کیوں بجا نہیں لائے؟‘‘
آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’اسلام کا یہ حکم ہے کہ ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو السلام علیکم کہا جائے۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ میر سلام کا جواب نہیں دیں گے۔ لہٰذا میں نے السلام علیکم کہنا بھی گوارا نہ کیا۔‘‘
جہانگیر نے مطالبہ کیا کہ آپ درباری آداب کو ملحوظ رکھیں اور مجھے سجدہ کریں ،
حضرت مجدد رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’خدا کا بندہ خدا کے علاوہ کسی کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتا جو احکم الحاکمین کی بارگاہ میں جھکنا جانتا ہو وہ کسی فانی حاکم کے جاہ و حشمت کے سامنے اپنا سر نہیں جھکا سکتا۔ اپنے ہی جیسے ایک مجبور انسان کو سجدہ ہرگز روا نہیں ۔ شریعتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ والتحیہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں ۔ ؎
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
مفتی عبد الرحمن نے جو اس وقت شیخ الاسلام کا درہ رکھتا تھا کتب فقہ سے سلاطین کے لئے تعظیمی سجدہ کا جواز پیش کیا اور کہا کہ میں فتویٰ دیتا ہں کہ اس وقت شہنشاہ کو تعظیمی سجدہ جائز ہے، مگر حضرت مجدد رحمہ اللہ
اَفْضَلُ الْجِھَادِ مَنْ قَالَ کَلِمَۃَ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ
(سب سے افضل جہاد اس شخص کا ہے جو ظالم بادشاہ کو سچی بات کہہ دے) کی عملی تفسیر بن گئے۔ آپ کی گردن شہنشاہ ہندوستان نور الدین جہانگیر کی سطوت و جبروت کے سامنے خم نہ ہوئی۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ؎
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی