کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 43
کے مقامات اور مشاہدات کے بارے میں لکھا تھا، بہرحال جہانگیر کو اس بات پر تشویش ہوئی، اِس نے حضرت مجد رحمہ اللہ کو طلب کیا۔ باز پرس ہوئی، آپ نے جواب میں فرمایا کہ میرے خلاف یہ الزام کہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہوں یکسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جس طرح میں اب آپ کے دربار میں آپ کے تمام مقربین بارگاہ کی موجودگی میں بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور شرفِ گفتگو بھی مجھے حاصل ہے مگر کیا یہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں میرا مرتبہ آپ کے تمام وزرا اور مقربین سے افضل ہے؟ یا یہ میرے لئے کس طرح لائق ہے کہ میں یہ دعویٰ کروں کہ میں تمام مقربینِ بارگاہ سے افضل ہوں ۔ جہانگیر اس مدلل جواب سے مطمئن ہو گیا اور حضرت مجدد رحمہ اللہ کو اعزاز و اکرام سے رخصت کیا۔ اس اعزاز و اکرام سے دشمنوں کے دِل و دماغ حسد کی آگ سے جل اُٹھے، ان کی چال ناکام ہو چکی تھی، مگر یہ لوگ بھی چپ رہنے والے نہیں تھے، انہوں نے کچھ دِن بعد کان بھرے کہ حضرت مجدد رحمہ اللہ کا زور روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، حکومت کے سربرآوردہ اشخاص ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو کر حضرت مجدد رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کر رہےہیں اور یہ حلف اُٹھا رہے ہیں کہ بادشاہ کے ان احکام کی اطاعت نہ کریں گے جو اسلام کے خلاف ہوں گے، سجدۂ تعظیمی جو کہ اکبر کے وقت شروع ہوا تھا، جہانگیر کے زمانے میں بھی رائج تھا۔ اور لوگ ؎ وہ سجدہ جو ماوراے حرم ہو ادا تیرے در پر کیا چاہتا ہوں کی صدائیں لگا رہے تھے۔ آصف جاہ جو ضرت مجدد رحمہ اللہ کا سخت ترین دشمن تھا۔ اس نے جہانگیر کو یہ یقین دلایا کہ ’’حضرت مجدد رحمہ اللہ آپ کی حکومت کے باغی ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ آپ کے لئے تعظیمی سجدہ بھی روا نہیں رکھتا حالانکہ سلطنت دہلیہ کے بہت سے علما اس کے حق میں فتویٰ دے چکے ہیں بلکہ شیخ احمد سر ہندی رحمہ اللہ تو سجدۂ تعظیمی کو حرام قرار دیتا ہے۔ اگر اس بات کا یقین نہ ہو تو جہاں پناہ دربار میں بلا کر اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں ۔‘‘ جہانگیر نے آخر کار اس تصدیق کی خاطر حضرت مجدد رحمہ اللہ کو شاہی فرمان کے ذریعے بلا بھیجا اور آپ کی زیارت کا اشتیاق ظاہر کیا۔ حضرت مجدد رحمہ اللہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دربار شاہی میں داخل ہوئے اور سجدۂ تعظیمی ادا نہ کیا جس کی جہانگیر آس لگائے بیٹھا تھا۔ بلکہ آپ نے سلام تک نہ کیا۔