کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 42
بھائی آصف جاہ امور سلطنت میں نور جہاں کا دستِ راست اور وزیر اعظم تھا، جہانگیر خود کہا کرتا تھا۔
’’ہم نے ایک سیر شراب اور آدھ سیر گوشت (کباب) کے بدلے سلطنت نور جہاں کو دیدی ہے۔‘‘
لیکن ان ناگفتہ حالات میں بھی حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ جس مشن کے لئے نکلے تھے اسے پورا کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اکبر کے مقابلہ میں آپ نے جس جرأت ۔۔۔ استقامات اور حق گوئی و بے باکی کا مظاہرہ کیا تھا اس کا عوام الناس پر بہت اثر ہوا۔
فَاجْعَلْ اَفْئِدۃ مِنّ النَّاسِ تَھْوِیْ اِلَیْھِمْ (قرآن مجید)
’’لوگوں کے دِل ان کی رف مائل کر دے۔‘‘
لوگوں کے دل آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ حکومتِ وقت کے بڑے بڑے عہدے دار بھی آپ کے علم و فضل اور ان کی روحانی قوت کے قائل ہو کر آپ کے مریدوں میں شامل ہو چکے تھے۔ تبلیغ دین جاری تھی اور کفر، شرک اور بدعت و ضلالت کے گڑھ (ہندوستان) میں دین حنیف کا ایک چشمۂ صافی جاری ہو رہا تھا جس سے تشنۂ لب سیراب ہو ہو کر نکلتے تھے۔ حضرت مجدد رحمہ اللہ نے اعلائے کلمۃ الحق کے لئے تحریر و تقریر دونوں کا سہارا لیا۔ عوام الناس سے گزر کر تبلیغ کی آواز اُمرائے سلطنت کے ایوانوں سے بھی ٹکرانے لگی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رافضیو کے اس ٹولے کو جو سلطنت پر چھایا ہوا تھا حضرت مجدد رحمہ اللہ کی تبلیغ سے سخت تکلیف ہوئی، نور جہاں ، وزیر اعظم آصف جاہ، آصف الدولہ اور مرزا غیاث اور ان کے دوسرے ساتھی حضرت مجدد رحمہ اللہ کے دشمن بن گئے۔ ان لوگوں نے بعض دین فروش ملاؤں کو ساتھ ملایا، جاہل صوفیا کی خدمات حاصل کیں ، اور ان تینوں گروہوں نے مل کر جہانگیر کو یہ تأثر دیا کہ شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ تبلیغ دین کے بہانے سے عوام الناس کو اپنا گرویدہ بنا رہے ہیں اور تخت شاہی پر متمکن ہونے کے خوا دیکھ رہے ہیں ۔ یہی وہ وقت جب ہندوستان کے بعض علما نے آپ کو واجب القتل قرار دیا۔ حضرت مجدد رحمہ اللہ کے ایک خط کے اقتباس سے فائدہ اُٹھا کر شاہ کو بھڑکایا، جو آپ رحمہ اللہ نے اپنے شیخ حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی رحمہ اللہ کو لکھا تھا۔ حاسدوں نے جہانگیر سے کہا کہ شیخ احمد سر ہندی رحمہ اللہ اپنے آپ کو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بھی افضل سمجھتا ہے۔ یہ خط ایک صاحب صوفی ولی اللہ کا تھا جس میں انہوں اپنے استاذ اور پیر و مرشد کو اپنے سلسلۂ تصوف