کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 41
جلتے تھے انہیں یہ بہانا ہاتھ آگیا کہ اِس طرح اکبر کے پاس حضرت مجدد رحمہ اللہ کے یہ کلمات پہنچا کر انہیں بادشاہ کی شان میں گستاخی کا مرتکب ٹھہرائیں گے۔ اس طرح حضرت مجدد شاہی انتقام کا نشانہ بن جائیں گے اور ان کی آتشِ انتقام سرد ہو جائے گی۔ اکبر نے حضرت مجدد رحمہ اللہ کے الفاظ سن کر مباحثے کا چیلنج کیا۔ آپ نے اِسے فوراً قبول کر لیا۔ مباحثے کا وقت آیا تو اکبر اپنے درباری مولویوں ک ہمراہ تخت شاہی پر فروکش ہوا، حضرت مجدد رحمہ اللہ بھی اپنے بوریہ نشین ساتھیوں کے ہمراہ جا پہنچے، مباحثے کا انتظام ہو چکا تھا مگر خدا تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا کہ اکبر جیسے بے دین بادشاہ کے دربار میں شاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غلام کی رسوائی ہو۔ ابھی مباحثے کا آغاز نہ ہوا تھا کہ ایک زور دار آندھی آئی جس سے دربار اکبری تہہ و بالا ہو گیا۔ خیموں کی چوبیں اُکھڑ جانے سے اکبر اور اس کے تمام ساتھی زخمی ہوئے لیکن حضرت مجدد رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کو خراش تک نہ آئی، بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ ان ہی زخموں کی وجہ سے اکبر کی موت واقع ہوئی اور مرنے سے پہلے اکبر اپنے عقائد سے توبہ کر کے دوبارہ حلقہ بگوش اسلام ہو گیا تھا۔ اکبر کی وفات کے بعد شہنشاہِ نور الدین جہانگیر ہندوستان کے تخت پر برا جمان ہوا۔ جہانگیر کے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ لکھا ہے: ہمایوں کے بعد جب اکبر تخت پر بیٹھا تو اس نے زندقت اختیار کی اور جہالت و گمراہی کے علم ہر طرف لہرانے لگے، مختلف مذاہب اور قوموں کے لوگ اکبر کے دین الٰہی میں داخل ہوئے اور انہوں نے عظیم فتنے پیدا کئے، اکبر کے بعد دائم الخمر جہانگیر سریر آرائے سلطنت ہوا تو ہندوؤں نے سر اُٹھایا، رافضیوں نے اُبھرنا شروع کیا، دیانتیں ضائع ہو گئیں ‘‘ ۔۔۔۔۔۔ جہانگیر کا اپنا بیان ہے:۔ ؎ ر و دولت بادشاہی من حالا ایں سلسلہ است پدر دیواں کل، پسر وکیل مطلق، دختر ہمراز و مصاحب میری حکومت کے در و دولت کا یہ حال ہے۔ اس (نور جہان) کا باپ دیوانِ کل ہے، (آصف جاہ، نور جہاں کا بھائی) وزیر اعظم ہے اور بیٹی (نور جہاں خود) ہمراز اور صاحب کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ تخت دہلی پر جہانگیر متمکن تھا مگر سکہ اس کی ملکہ نور جہاں کا چلتا تھا، اس کا