کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 40
پیدا ہوا۔ دین حق کی حفاظت کے لئے کوئی نہ کوئی ہستی ان تیرہ و تار فضاؤں میں نمودار ہوئی جس کی نورانی کرنوں سے کفر و الحاد کی تاریکیاں چھٹ گئیں جس کی ضیا بار تابانیوں س بعت و ضلالت کی آندھیاں ڈھل گئیں جس کی ضوفشاں شعاعوں سے زند قت کے اندھیرے بھی منور ہوئے اور توحید و سنت کی مشعلیں چمک اُٹھیں ۔
جب کفر و شرک، بدعت و ضلالت اور زندقہ و الحاد کی آندھیاں اپنی تمام تاریکیوں سمیت ہندوستان کی فضا پر چھا گئیں تو آسمانِ ’’سر ہند‘‘ پر سنت و ہدایت کا آفتاب طلوع ہوا جس کو لوگ شیخ احمد سر ہندی کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ اس آفتاب کی ضیا پاشیوں سے ظلمت و گمراہی کے اندھیرے کافور ہوئے، اکبر نے جس دین کی بنیاد رکھی تھی اور اعوان و انصارِ حکومت جس کی تبلیغ میں ہمہ تن مصروف تھے، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو بیخ و بن سےے اُکھاڑنے کا تہیہ کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حق اپنی تمام جلوہ سامانیوں سے طلوع ہوتا ہے۔ تو باطل کافور کی مانند تحلیل ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ بشارت دی گئی ہے:
جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ البَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔
’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، تحقیق باطل مٹنے والی چیز ہے)
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے دین حنیف کے احیا کا بیڑا اُٹھایا۔ اس وقت اکبر کا دار الحکومت آگرہ تھا۔ شیخ احمد سر ہندی رحمہ اللہ ’’سرہند‘‘ سے آگرہ روانہ ہوئے۔ دربار اکبری کی شان و شوکت سے لوگ مبہوت ہو جاتے تھے۔ اس جاہ و حشمت سے ان کی زبانوں پر مہر سکوت لگ جاتی تھی، مگر شیخ احمد سر ہندی رحمہ اللہ دربار کی شان و شوکت سے ذرا متاثر نہ ہوئے۔ آپ نے درباریوں سے مخاطب ہو کر بلا خوف و خطر یہ کہا:
’’اے لوگو! تمہارا بادشاہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے منحرف اور اس کے دین سے باغی ہو گیا ہے۔ میری طرف سے اُسے یہ کہہ دو کہ دنیوی شان و شوکت اور تخت و تاج کی یہ سطوت سب فانی ہیں ، وہ توبہ کرے اور خدا کے دین میں از سرِ نو داخل ہو جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے، ورنہ خدا تعالیٰ کے غضب کا انتظار کرے۔‘‘
علمائے سو جو حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے علم و فضل سے بغض رکھتے، ان کے مرتبہ ولایت سے